"سیاسی محرومی کے بہت سارے اسباب ہیں جن میں ایک اہم سبب اپنی قیادت سے غفلت برتنا ہے اسی بنا پر ہماری قوم سیکولرزم کے نام پر غیر مسلم لیڈران کو اپنا رہبر مانتی رہی لیکن 70 سال گزرجانے کے بعد بھی اپنی قیادت پر بھروسہ کرنے تیار نہیں ہے۔جس کی وجہ سے مسلمان سیاسی اعتبار سے حاشیہ پر پہنچ چکے ہیں۔سیاسی قیادت کے نام پر کیرل کی مسلم لیگ آسام کی یوڈی ایف اور تلنگانہ کی ایم آئی ایم کے علاوہ مسلمانوں کے پاس کوئی اہم نام نہیں ہے۔
مسلمانوں کی بڑی تعداد والے صوبوں یوپی، بہار، بنگال، راجستھان، ایم پی اورمہاراشٹر وغیرہ میں قیادت کا خانہ صفر ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ان صوبوں مسلم لیڈر شپ نہیں ہے؟
لیڈر شپ تو موجود ہے مگر سیاسی اعتبار سے دوسروں کے پیچھے ہے اور ذہنی غلام ہے۔یوپی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد (قریب چار کروڑ) ہے لیکن صوبے میں مسلم لیڈر شپ کا مکمل فقدان ہے یہاں 8 فیصد یادو لیڈر اور 20 فیصد مسلمان ان کے پیچھے ہیں۔سیاسی یتیمی کا عالم یہ ہے کہ 16ویں پارلیمانی انتخاب میں چارکروڑ مسلمان اپنا ایک ایم پی تک نہیں بنا پائے لیکن 8 فیصد یادوں نے ایک ہی خاندان سے پانچ لوگوں کو ایم پی بنالیا اسمبلی انتخاب میں 5.3 فیصد والی کُرمی برادری "اپنا دل” نے اپنے بینر پر 9 ایم ایل اے بنالئے مگر مسلم پارٹی ایک ایم ایل اے تک نہیں جتا سکیں۔”
(ہمارے عہد کا بھارت ص 75،76)