ازقلم: انصار احمد مصباحی
9860664476 aarmisbahi@gmail.com
شاعر کہتا ہے:
پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہیں مثل یہودی بھی یہ سعودی بھی عذاب
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھے
کعبے کی کمائی سے جو پیتی ہے شراب
تیرے حبیب کا پیارا چمن کیا برباد
الہی نکلے یہ نجدی بلا مدینے سے
اور
کسر باقی نہ رکھی بزم امکاں جگمگانے میں
عرب میں چاند نکلا چاندنی پھیلی زمانے میں
کسی شیئ کی تمنا ہی نہیں ہم کو زمانے میں
مدینہ لکھ دیا جائے ہمارے آب و دانے میں
وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا (بنیچاسرائیل: 80) صدق اللہ العظیم
درود پاک پڑھیے……!
محترم حضرات! کہتے ہوئے زبان لرزتی ہے۔ آج جب کہ پوری دنیا کورونا کی تباہ کاریاں جھیل رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تالے لگے ہیں۔ حج کے عظیم فریضے کی ادائیگی پر پابندی ہے۔ زیارتیں بند ہیں۔ اور یہ ابن عبد الوہاب نجدی کی ناجائز اولاد اور صحراے عرب کے بدو اور چرواہے، حرم شریف میں رنگ رلیاں منانے میں مصروف ہیں۔ مکہ اور مدینہ میں رات دن ناچ گانے، شراب نوشی، فلم بینی اور فحاشیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ سب ہمارے حج اور عمروں کی آمدنی سے رہے ہیں۔
یہ سن کر کس مسلمان کا دل نہیں کانپے گا! ابھی کل کی بات ہے۔ سعودی ڈے کے موقع پر 6 فلمی ریلیز کی گئی ہیں۔ چار سالوں میں 44 بڑے سنیما گھر کھولے ہیں۔ ابن سلمان اسے معیشت کی ترقی کا نام دیتا ہے۔ولی عہد کان کھول کر سن لے! تجھے معیشت ہی چاہیے تو ہم بھارت کے مسلمان چندہ کر کے دیتے ہیں۔ کتنا چاہیے۔
آل سعود کے چرواہو! تم نے عثان غنی کی قبر کو توڑا، ہم چپ رہے، ماں خدیجہ کی قبر مبارک کو پامال کیا، ہم خاموش رہے، ماں فاطمہ زہرا کی قبر مبارک مسمار کیا، ہم چپ رہے، امام حسن کے روضے کو توڑا، ہم چپ رہے، صحابہ کے مزارات کے اوپر سے راستے نکلواے ، ہم خاموش رہے، دس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی مبارک قبریں تہ و بالا کردی، ہم دل پہ پتھر رکھ کر خاموش رہے۔ بے شمار یادگار مٹائے، زیارتیں مسمار کیں، ہم کچھ نہیں بولے، ہماری خاموشی کو تم نے بزدلی سمجھ لیا۔
یاد رکھو! مدینہ تمھارے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ وہ ہم بیس کرور بھارتیوں کی شان ہے، ہماری مان ہے، ہماری جان ہے، وہاں ہمارے دلوں کی دھڑکنیں آباد ہیں۔ تم ہمارے دلوں کی دھڑکنں سے کھیلو گے، ہم برداشت نہیں کریں گے۔
یاد رکھنا! یہ تم نے کیسے سوچ لیا کہ تم پیرے آقا سید عالم ﷺ جانشیں ہو! رسول اللہ ﷺ کے سچے جانشین دیکھنا ہو تو بغداد معلی جاؤ! صدیوں سے اپنے نانا جان کی وراثت لٹا رہے ہیں، پیارے نبی ﷺ کے نائب ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ کا سچا جانشین دیکھنا ہو، ترکی جاؤ، فلسطین جاؤ، سینوں پر گولیاں کھاکر، گھرکے بچوں کو قربان کر کر کے اسلام اور قبلہ اول کی شوکت اور عظمت کی حفاظت کر رہے ہیں، اجمیر معلی چلے آو، دہلی میں دیکھو، گل برگہ اور پنڈوا آؤ، کچھوچھہ چلے آؤ! یہ ہوتے ہیں رسول ﷺ کے سچے نائب۔ ان کی نیابت کیسے نبھائی جاتی ہے، دیکھنا ہو تو دولت آباد، کالپی، بلگرام اور مارہرہ چلے آؤ اور دیکھو!
آل سعود کے کتو! یاد رکھنا میرے سرکار نے تمھیں اپنے درپر صرف نوکری پر رکھا ہے۔ میرے آقا کا جود و کرم پر قربان جاؤ کہ وہ گالیاں دیتے ہیں، حرم کی حرمت کو پامال کرتے ہیں، آقا ﷺ کے عاشقوں کو ستاتے ہیں، رؤف و رحیم آقا انھیں پھربھی کھلاتے پلاتے ہیں۔ کیوں نا ہو! میرے آقا تو رحمة للعالمیں ہیں۔ آپ پوری کائنات کے لئے رب کی نعمت ہیں۔ ؎
کرم سب پر ہے کوئی ہو کہیں ہو
تم ایسے رحمة للعالمین ہو
لیکن ہاں! آل سعود اپنی اوقات نہ بھولے۔ میرے آقا ﷺ نے آج انھیں نوکری سے نکال دیا، کل وہ پھر سے عرب کے تپتی صحراوں میں بکریاں چرانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
فضائل
گستاخ وہابیوں کو حرمین طیبین بزنس انڈسٹری نظر آتے ہیں، تجارت گاہ نظر آتے ہیں۔ عاشقوں سے پوچھو!
گر خلد بر روے زمیں است۔ ہمیں است ہمیں است ہمیں است
مکہ اور مدینہ دنیا کے افضل ترین مقامات ہیں۔ دونوں میں کون افضل ہے، یہ فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ دل والے جانتے ہیں، عشق دلوں کو کس طرف کھینچتا ہے۔
طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
لیکن اس میں سارے ائمہ کا اتفاق ہے کہ قبر انور میں زمین کا جو خوش نصیب حصہ پیارے نبی ﷺ کے زندہ و جاوید قدموں کا بوسہ لے رہا ہے، وہ مکہ ہی نہیں جنت سے بھی افضل ہے، یہاں تک کہ عرش اعظم سے بھی افضل ہے۔
حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مدینہ دنیا کی افضل ترین جگہ ہے؛ حضرت عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں، مدینہ مکہ سے بھی افضل ہے، فقیہ مدینہ عاشق رسول ﷺ امام مالک کہتے ہیں، مکہ سے مدینے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ اس مدینے سے سرکار نے خود محبت کی ہے۔ بخاری کی حدیث ہے۔ کہ جب حضور کسی سفر سے واپس ہوتے تو مدینہ شریف قریب ہوتے ہی سواری تیز کر دیتے تھے۔ جسم اقدس سے گرد و غبار صاف نہیں کرتے تھے۔ اور فرماتے ”مدینے کی مٹی میں شفا ہے“۔
مسلم شریف میں حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ قیامت کے دن مسلمان پہاڑوں کی طرح گناہ لے کر آئیں گے۔ پھر اللہ تعالی وہ گناہ ان یہودچو نصاری کے سروں پر ڈال دے گا، جنھوں نے حرم پاک کی بے حرمتی کی ہے۔
حضور سرور کائنات ﷺ نے ایک بار مدینے کے بارے میں فرمایا: یہ ”طابَ“ ہے، یہ احد پہاڑ ہے۔ یہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
ترمذی میں افضل البشر بعد الانبیاء حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رویات ہے۔ فرماتے ہیں: اللہ تعالی ہر نبی کی رووح، اس جگہ قبض فرماتا ہے، جس جگہ کو وہ اپنے دفن کے لئے پسند کرتے ہیں۔ اور اللہ نے پیارے نبی ﷺ کی روح دنیا کی افضل ترین جگہ میں قبض فرمائی ہے۔
حضرت قتادہ سے حدیث مروی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا۔ پھر پتھروں پر نماز پڑھی اور دعا فرمانے لگے۔ اے اللہ! حضرت ابراہیم تیرا خلیل، تیرا بندہ اور تیرا نبی مکے کے لئے دعا کی تھی۔ میں تیرا بندہ ، تیرا نبی اور تیرا رسول مدینہ اور اہل مدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اے اللہ مدینہ طیبہ کو تو ہمارے لئے محبوب بنادے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہمیشہ دعا مانگا کرتے تھے: ” اے اللہ مجھے شہر رسول میں موت عطا فرمانا“، حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ بہت بڑے عاشق رسول ﷺ ہیں۔ آپ نے صرف ایک بار حج کا فریضہ ادا کیا اس کے بعد کبھی مدینے سے باہر نہیں گئے، صرف اس خوف سے کہ کہیں میری موت مدینے کے باہر نہ ہوجائے، آپ مدینے کی گلیوں میں ننگے پیر چلا کرتے تھے۔ آپ فرماتے : جن گلیوں کو میرے آقا کے قدموں نے شرف بخشا ہے، ان میں چپل پہن کر چلوں، یہ میرے نزدیک بے ادبی ہے۔ مدینے کی فضیلت میں بے شمار حدیثیں وارد ہیں۔ اسے رسول اللہ ﷺ کا حرم قرار دیا گیا ہے، یہاں اتنی برکت ہے کہ ایک آدمی کا کھانا، دو کو کافی ہو جاتا ہے، مدینہ شہر کے جتنے نام ہیں، کسی شہر کے نہیں ہیں، مدینہ طیبہ کی مٹی میں شفا ہے، مدینے میں انتقال کرنا شہادت سے بھی افضل ہے، دجال مدینہ داخل نہ ہو سکے گا، مدینے میں طاعون داخل نہیں ہوگا، یہاں نیک اعمال کا اجر کئ گنا ہے۔
اد گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
اور
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
لیکن کہتے ہیں نا! بندر کیا جانے ادرکا سواد؟ عشق رسول ﷺ اور جذبہ ادب و محبت کا اللہ کا انعام ہے، وہ جسے عطا فرما دے۔ ؔ
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں