تحریر: محمد مجیب احمد فیضی
استاذ/ دارالعلوم محبوبیہ رمواپور کلاں اترولہ بلرام پور
رابطہ: نمبر: 8115775932
26/ جنوری کو "یوم جمہوریہ” کے نام سے جانا جاتا ہے .ہندوستانی تاریخ میں یہ دن ایک خاص اہمیت کا حامل ہے. پورے ہندوستان میں یہ دن” قومی دن” کی حیثیت سے منایا جاتا ہے. "یوم جمہوریہ "کے پر بہار وحسین موقع پر پورے ملک میں قومی تعطیل ہوتی ہے. ہر جگہ جشن جیسا ماحول نظر آتا ہے.
گاؤں دیہات ہو یا شہر, گلیاں کوچے ہوں یا بازار ,اسکول کالج ہوں یا یونی ورسٹیاں یا پھر سرکاری ادارے ہوں یا دفاتر, سبھی مقامات خوبصورت ترنگی جھنڈیوں سے سجے نظر آتے ہیں.تقریبا ہرجگہ حب الوطنی نغمات سنائی دیتے ہیں. آج کے دن ہر ہندوستانی کا دل حب الوطنی نغمات سے لبریز ہوتا ہے.اس موقع پر مرد ہو یا عورت سبھی اپنے ہاتھوں میں ترنگے لے کر اپنے حب الوطنی کا ثبوت فراہم کر رہے ہوتے ہیں.اسی جذبے میں ڈوب کر چھوٹے چھوٹے بچے بھی
اپنے لباس پر مختلف رنگ کے اسٹیکرس آویزاں کراکے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں لے کر مستی میں جھومتے اور گاتے ہوئے نظر آتے ہیں. ایک چھوٹا سا سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سی ایسی خصوصیت اس دن کو حاصل ہے کہ اس موقع پر پورا ہندوستان ایک ہی رنگ میں رنگا اور خوشیوں میں سرشار نظر آتا ہے؟
ذراسوچوتو سہی !!! آج سے 75/سال قبل جب ہمارا یہ پیارا ملک انگریزوں کے تقریبا ڈھائی سو سالہ ظالمانہ وجابرانہ وغاصبانہ تسلط سے آزاد ہوا اور ملک کےقومی لیڈران نے جب اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیا توان کے باہمی اتفاق رائے سے یہ طے ہوا کہ اپنے ملک کو ہم ایک ایسا جمہوری ملک بنائیں گے جہاں ہر مذہب وملت ,قوم وبرادری اور ہر رنگ ونسل کے لوگ پر سکون زندگی گزار سکیں. جہاں کوئی بھی کسی کے رنگ, نسل مذہب وملت کا دشمن نہ ہو جہاں چین وسکون ,اخوت ومحبت ,قومی یکجہتی اور بھائی چارگی کے ساتھ زندگی گزر بسر ہو سکے, اور ایسے ملک کی تشکیل کا فیصلہ لیا گیا جو گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہو سکے. چنانچہ مادر وطن ہندوستان کی جمہوری دستور کی تشکیل کے لئے 1947/ کے بعد قانونی ماہروں اور ہندوستان کے ارباب سیاست دانوں کے ایماء پر بابا بھیم راؤ امبیڈ کر کی مضبوط قیادت میں 12/ارکان آئین ساز کمیٹی عمل میں آئی اس تشکیل شدہ کمیٹی نے تقریبا دوسال گیارہ ماہ اٹھارہ دن کی مدت میں 26/ نومبر 1949/
میں دستور ہند کا مسودہ تیار کرکے پیش کیاجسے 26/ جنوری 1950/سے پورے ملک میں نافذ کیا گیا. یہی 26/ جنوری کی وہ عظیم تاریخ ہے جس تاریخ سے پورے ہندوستان میں دستوری آئین کا مکمل نفاذ عمل میں آیا. اس دستوری نفاذ کے ساتھ مادر وطن ہندوستان جمہوری نظام حکومت میں تبدیل ہو گیا. اور 26/ جنوری 1950/ سے پورے ملک بھر میں دستور ہند کی عمل آوری شروع ہو گئی. یہی وجہ ہے کہ یوم جمہوریہ کے پر لطف موقع پر ہم اہل وطن بلا تفریق رنگ ونسل , مذہب وملت وطنی محبت کے جذبات کے ساتھ قومی ترنگے میں رنگ کر سرشار نظر آتے ہیں .وطن عزیز ہندوستان میں” یوم جمہوریہ” کے موقع پر مدارس ومکاتب سرکاری دفاتر بڑے بڑے اسکولس وکالجز یونی ورسٹیاں میں قومی ترنگے کو باالاہتمام سلامی پیش کی جاتی ہے.طلبا اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں انتظام وانصرام کے ساتھ قومی ترانے پیش کرتے ہیں, اورقوم کے معزز ومحترم اشخاص شرکت کرکے ان طلبا کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں.
یوم جمہوریہ ہرسال ہمیں ملک کے اطراف واکناف میں امن وشانتی ,چین وسکون, اخوت ومحبت ,یکجہتی آپسی محبت ویگانت, بھائی چارگی کا ماحول قائم کرنے کا ہیغام دیتا ہے. وطن کی خوشحالی اور ترقی میں میں اہم کردار ادا کرنے کا صحیح معنوں میں احساس کراتا ہے.آیئے ہم سبھی برداران وطن بلا امتیاز مذہب وملت یہ طے کریں کہ تاحین حیات ملک کی ترقی اور خوشحالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے.اس سر زمین کی فضا کو پوری عمر امن وسکون الفت ومحبت کے جذبوں سے آراستہ کرتے رہیں گے. ایک اچھا شہری ایک بہترین ناگرک بن کر رہیں گے.پوری زندگی ملک کا وفادار بن کر رہیں گے.ملک کی ترقی کے خاطر ہم ہمیشہ کوشاں رہیں گے اور اگر ضرورت آن پڑی ملک کے تحفظ وبقاء کی خاطر تازہ لہو کی تو اپنی پیاری جان اپنے وطن خاطر سپرد کرکے فخر محسوس کریں گے.
ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا کردار قدرتی طور پر ممتاز اور نمایاں رہا ہے.
وطن عزیز ہندوستان کی آزادی کی کہانی اور تواریخ مسلمانوں کے خون سے تحریر کی گئی ہے.تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ آزادی سے قبل بزرگوں کے اس دیش پر انگریز جیسے ظالم وجابر حکمرانوں کا غاصبانہ قبضہ واقتدارتھا.
ان تن کے گوروں اور من کے کالوں نے اندر سے اس کے مضبوط ومستحکم بنیاد کو کھوکھلا اور برباد کرنے میں انتھک کوشش کیا یہ اور بات ہے کہ سو فیصد کامراں نہ ہو سکے. آبادی کے اعتبار سے تناسب کے مطابق اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کی ایک کثیرتعداد جماعت نے ان ظالم حکمرانوں کے ناپاک چنگل سےوطن عزیز کو چھڑانے کے واسطے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ قدم بہ قدم اس ملک کے خاطر اپنی پاک جانوں کا ہنستے ہنستے نذرانہ بھی پیش کیا.
اور یہ بات کسی خاص محب وطن نے نہیں کہا ,اور ناہی کسی مسلم عالم وقائد نے, بلکہ ایک باکمال اور نہایت ممتازصحافی ادیب آنجہانی خشونت سنگھ کےہیں.
خائب وخاسر دھوکے باز ظالم انگریزوں سے نجات پانے کے لئے سب سے پہلے مسلمانوں نے قدم بڑھائے اور انگریزوں کے چھکے چھڑا دیئے .مسلم خواتین نے بھی اس عظیم مہم میں بہت ہی اعلی کردار ادا کئے ,ملک وملت کا درد رکھنے والی خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے ملک پر اپنی جانیں نچھاور کیں.
تاریخ داں سے یہ بات پوشیدہ نہیں
کہ انگریزوں کے دور تسلط سے مادر وطن ہندوستان کی آزادی تک مسلمانان ہند کو کس قدر اپنی جان کی قیمت چکانی پڑی,ستم کی کتنی سیاہ راتوں کا سامنا کرنا پڑا, قدم قدم پر ظلم وبربریت کی تاریک ترین اورسخت آندھیوں سے گزرنا پڑا, نہ جانے کتنی تکالیف مصائب و آلام مخل ومانع ہوئیں لیکن اس سب کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنا پڑا تب کہیں جا کرکے نخل تمنا پر محنت ومشقت کے پھل نظر آیے.ہندوستان اور ہندوستانیوں کو طویل جد وجہد کے بعد آزادی جیسی نعمت عظمی ملی.ہمارے اکابرین نے اس تحریک آزادی میں زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا,جان ومال کی قربانیاں پیش کیں,تحریکیں چلائیں تختۂ دار کو چوما,پھانسی کے پھندے نہایت جرأت وحوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ گلے لگایا,قید وبند کی تمام کی تمام پریشانیاں جھیلیں اور مادر وطن کی آزادی کی خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے. آخر کار ظالم وجابر حکمراں غیر ملکی انگریز دیش چھوڑنے پر مجبور ہوئے.غیر ملکی حکمرانوں نے اپنی اقتدار کو بچانے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلیں,تدبیریں کیں, رشوتیں دیں,لالچ دیئے ,پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا اصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا,
فرقہ وارانہ اختلافات پیدا کروائے.حقائق کو ایک دم سے توڑ مروڑ کر پیش کیا,آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں,تاریخ کو مسخ کیا,انگریز ظالموں نے سادہ لوح ہندوستانیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے
اور ناحق لوگوں کو تختۂ دار پر لٹکایا,معصوموں پر ناحق گولیاں چلوائیں,چلتی ریلوے سے اٹھا کر باہر پھینکا,مگر ان کے ظلم وستم کو روکنے کے لئے اور طوق غلامی کو گردن سے نکلنے کے لئے بہادر ودلیر مجاہدین آزادئ ہند نے ان کا ڈٹ کا مقابلہ کیا گھمسان کی لڑائیاں ہوئیں غیر ملکی حکمراں کو شکست فاش ہوااور مجاہدین آزادی نے چین کی سانس لی.
غرض ہر طرح ہر موقع پر مسلمان جنگ آزادی میں برابر شریک رہے جن کو آج فراموش کیا جارہا ہے تاریخ کو محو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے,کسی شاعر نے کیا خوب کہا :
جب پڑا وقت گلستاں پہ خون ہم نے دیا
جب بہار آئی تو کہتےہیں ترا کام نہیں.