مضامین و مقالات

سیمانچل کے جلسے اور اعراس

تحریر: انصار احمد مصباحی، اتردیناج پور

مسلسل چھے مہینوں سے گھر پر ہوں، اس عرصے میں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملا، دینی جلسوں میں شریک ہونے کی بھرپور کوشش کی، علاقے کے اکثر عرسوں میں گیا۔ میرا رب اور اس کے محبوب ﷺ میرے دل کی نیتوں سے خوب واقف ہیں۔ مجھے اس دوران جو تلخ تجربے ہوئے ، وہ نہایت ہی درد ناک، تشویش ناک، پشیماں کن اور قابل مذمت ہیں۔

ہمارے پوسٹروں پر جلسوں، کے نام کچھ اس طرح لکھے ہوتے ہیں، ”اصلاح معاشرہ کانفرنس“، ”سیرت مصطفٰی ﷺ کانفرنس“، ”جشن رحمة للعالمین ﷺ“، ”پیغام غوث اعظم“، ”پیغام اعلی حضرت“، ”فیضان اولیا کانفرنس“، ”فیضان تاج الشریعہ کانفرنس“ وغیرہ غیرہ۔ ان جلسوں میں منتظمین، قائدین اور مقررین کی ناکوں کے نیچے ایسی ایسی شرم ناک حرکتیں انجام دی جاتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
پوسٹروں میں جلی حرفوں میں لکھا جاتا ہے۔
”عورتوں کے لئے پردے کا معقول انتظام رہے گا“۔
اس سیدھے سے جملے کی آڑ میں اسلامی پردے کی ایسی عصمت دری ہوتی ہے کہ کسی بھی بھلے مانوس کی روح کانپ جائے، اس میٹھے بول کے ذریعے گھر کی پردہ نشینوں کو، گھر سے نکال کر بازار کی زینت بنا دی جاتی ہے، جان بوجھ کر انھیں آوارہ گردوں کی بدنگاہی کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔ دینی محفلوں کی فضیلتیں بتا بتا کر لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے، اور انھیں جشن عید میلاد النبی ﷺ کے نام پر پورے میلے ٹھیلے میں گھمایا جاتا ہے۔ علم دین کی فضیلتوں والی آیتیں سنا سنا کر اسلامی بھائی اور بہنوں کو جمع کیا جاتا ہے اور جلسہ کے نام پر انھیں دنیا بھر کی خرافات، بے حیائیوں اور فحاشی کی آماج گاہ فراہم کی جاتی ہے۔

جلسوں اور کانفرنسوں میں آئے ہوئے بھائی بہنوں کو، حیا سوز اور شرم ناک حرکتیں کرتے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، میں نے اپنے سر کی نگاہوں سے، بالغ بالغاؤں کو کھیتوں، جھاڑیوں اور جلسہ گاہ سے دور ویرانوں میں چلتے پھرتے اور مستیاں کرتے دیکھا ہے۔ چند دنوں پہلے کالو گانو (تھانہ دال کولہ) کے کانفرنس میں چند نوجوانوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی، اس جھڑپ میں چند نوجوان اتنے شدید زخمی ہوئے کہ پہلے راے گنج پھر پورنیہ آخرکار شلی گوڑی میں اس کا علاج ممکن ہو پایا۔ یہ حادثہ چند نوجوانوں کے مینا بازار میں زبردستی گھسنے اور کمیٹی کے ذریعے انھیں روکنے کی کوشش کرنے کے دوران میں پیش آیا۔

دنیا میں کوئی ایسا مفتی نہیں، فقہ کی کوئی ایسی کتاب نہیں، کوئی ایسا جزئیہ نہیں، جس کی روشنی میں، سیمانچل کے موجودہ طریقوں میں رائج جلسوں میں عورتوں کے آنے کو جائز قرار دیا جا سکے۔ ”اصلاح معاشرہ کانفرنس“ میں بلائے گئے مقرر صاحب کے سامنے آدھا پنڈال عورتوں (سمجھ نہیں پاتا میں انھیں پردہ نشین کیسے کہوں!) سے بھرا ہوتا ہے، اسّی فیصد عورتیں برقعے میں نہیں ہوتیں، کیا کسی مقرر نے کہنے کی جسارت کی، کہ عورتوں کا اس طرح سے جلسوں میں آنا بالکل غلط ہے!
کیا اس کا ایک مطلب یہ بھی نہیں نکلتا کہ خطیب شہر بھی حصول لذت میں برابر کا شریک ہے!
ماں بہنیں اس مقرر اور دراز زلف شاعر کو ٹک ٹک دیکھتی رہتی ہیں، کیا خطیب صاحب نے کہا کہ اس طرح آپ کا میری طرف دیکھنا غیر شرعی ہے! نگاہیں نیچی رکھنے اور پردہ کرنے کی آیتیں کہاں گئیں!
دو بجے رات تک پنڈال میں بیٹھی عورتوں کے ہمت و حوصلے کو رابعہ بصریہ اور رضیہ سلطانہ سے تشبیہ دینے والے خطیب نے ، کبھی یہ سوچا کہ یہ عورتیں اپنے گھروں سے کس طرح آئیں ہیں، کیا ان سب کے ساتھ غیر محرم موجود ہیں، کیا ساری بیویاں اپنے شوہروں کی اجازت لے کر نکلیں ہیں!

کیا کسی خطیب نے آج تک یہ کہنے کی ہمت کیا کہ میری ماں بہنیں! آپ کا اس طرح نکلنا درست نہیں، کیا مقرر نے کبھی یہ ہمت کر پائی کہ منتظمو! مذہبی جلسوں کو مینا بازار بنانا بند کرو، گھر کی لڑکیوں کو جلسوں کے نام ، ہوس کے پجاریوں کی نگاہوں کے تماشا بنانا بند کرو!

جلسوں میں مینا بازار پر پابندی لگانے پر کسی نے روک لگائی ہے!
کیا یہ ممکن نہیں کہ عورتوں کو آنا ضروری ہی ہو گیا ہو تو ان کے لئے برقع مشروط کر دیا جاے!

سارے خرافات نیتوں کے فتور کا ہے۔ ایک جگہ جلسے کی میٹنگ ہو رہی تھی، اتفاق سے مجھے بھی اس میٹنگ میں بیٹھنے کی جگہ گئی۔ ایک صاحب کہنے لگے، ”عورتوں کو مردوں کے آمنے سامنے رکھا جاے، اس سے پبلک زیادہ رہتی ہے“۔
بربل بھٹا گانو کے جلسے میں میرے ہمنام ایک مولانا صاحب غیر شرعی گھوم رہے تھے، ہم لوگوں نے اصلاح کی غرض سے اسے روکنے کی کوشش کی تو علم و عمل کا وہ یتیم، بجاےشرمندہ ہونے کے، رشتے کی تفصیلات بتانی شروع کردی۔ اللہ کی پناہ

جلسے کرانا باعث ثواب ہے؛ پر اس کے نام پر مرد و عورت کا اختلاط سخت حرام،
جلسوں سے عقائد اور اعمال کی اصلاح ہوتی ہے؛ لیکن مقررین کا جان بوجھ کر اصلاح نہ کرنا، عورتوں کو بے پردہ نکلنے سے نا روکنا، ضرور ” کتمان علم“ ہے، بزرگان دین کے عرسوں سے، اللہ کے بندوں کو فیضان ملتا ہے، بزرگوں کے وسیلے سے دعائیں قبول ہوتی ہیں، ان کے مزارات پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ان کی بارگاہوں میں دنیا و آخرت کی دولتیں تقسیم ہوتی ہیں؛ مگر ساری باتیں اس بات پر منحصر ہیں کہ کیا وہ کسی ”اہل اللہ“ کی قبر ہے؟ ہمارے ارد گرد جتنے دھوم دھام والے اعراس منعقد ہوتے ہیں، 98 فیصد مصنوعی اور منگڑھت مزار ہیں۔ اس بات کی آدھی دلیل تو خود ان کے فرضی ناموں میں ہوتا ہے، جیسے بہادر پیر، پچھوا پیر، صابن پیر، سکھوا پیر، مکھیا پیر، پیپل پیر ، چولھا پیر وغیرہ وغیرہ۔
اوہ !!! میں پیچھے کچھ بھول کر آگے بڑھ گیا۔
آمدم بر سر مطلوب۔ اسلامی جلسوں کا طرز آج بالکل غیر اسلامی ہوگیا ہے، ان سے قوم و ملت کو دین سے زیادہ خرافات مل رہی ہیں، فائدے سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے، جلسوں کا مقصد اصلاح عوام کی بجاے ”بچت“ ہو گیا ہے، کہیں جلسہ ہونے لگے تو لوگ ہفتوں پہلے جلسے کی نہیں ”میلے“ کی تیاری کرنے لگتے ہیں، لاکھوں کی فضول خرچی ہوتی ہے۔

اس کا ذمہ دار ہم، معاشرہ، سماج، منتظمین اور علما ہر کوئی ہے۔ ہم نے ایسے جلسوں کا بائیکاٹ نہیں کیا، معاشرہ اس طرح کے جلسوں کا عادی ہوگیا، سماج کو تفریح کا سامان مہیا ہوجاتا ہے، وہ اسی میں خوش ہے، منتظمین نے پوری ایمان داری ، محنت و لگن بچت پر لگادی، نام و ریا میں حدود توڑ دیے اور سب سے آخر میں، علما نے بر سر منبر اصلاح کرنے کا نبوی فریضہ سر انجام دینے میں کوتاہی سے کام لیا۔

حالات ناگفتہ بہ ہیں، سنجیدہ طبقہ جلسوں میں آنے سے رہا، جنٹلمین نسل نو چیخ و پکار، لچک اور چمک دمک کو شاعری سمجھ بیٹھی ، بکواسی ، لفاظی، لطیفہ گوئی ، کرسی توڑنے اور جھاگ اڑانے کو خطابت کا نام دے دیا گیا، بالاے ستم یہ ہوا کہ نقیبوں نے ان صفات سے متصف خطبا و شعرا کو ”خطیب اعظم ہندوستان“ اور ”صاحب طرز شاعر“ بنا دیا۔ ( …………جاری )

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے