ازقلم: عبدالامین برکاتی قادری
چاند شہید مسجد گومتی پور، احمدآباد گجرات
اے پیارے کچھ تو بول، بول نہیں سکتا، اے پیارے لکھ تو سکتا ہے ناں، اگر نہیں لکھا تو یہ سنگھی، یہ ظالم، یہ جابر، تیری موت کا پیغام لکھیں گے، اے پیارے بول اس سے پہلے کہ تیری زبان بند کر دی جائے، بول اس سے پہلے کہ تو گونگا ہو جا، بول اس سے پہلے کہ یہ قمر بھی ڈوب جائے، اگر یہ قمر بھی ڈوب گیا تو واللہ اس کے بعد شاید ہی کوئ قمر فلک پر جگمگائے۔ یہ قمر TFI کا نہیں، بلکہ یہ قمر محافظِ ناموسِ رسالت کا قمر ہے،یہ عثمان ذوالنورین کا قمر ہے، اے پیارے کچھ بول دے، کچھ لکھ دے اور اپنا حق ادا کردے….
حضرت قمر غنی عثمانی صاحب کی گرفتاری اور امت مسلمہ کی خاموشی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم سب مر چکے ہیں۔ ہمارے قائد سے ہمارا کوئی رشتۂ اخوت نہیں۔ اب ہم وہ مسلمان بھی نہیں رہ گئے جس کا نام سن کر ایوانِ کفر میں زلزلہ آجاے۔ لیکن آج ہم سہمے سہمے ہوئے ہیں، خود کو ایکزیسٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ریت میں سر چھپا کر خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
سبھی لوگ عثمانی صاحب اور دیگر اصحاب کی بے جا گرفتاری پر خاموش ہیں، کہیں سے کوئ آواز سنائی نہیں دیتی، کیا اس خاموشی کا نام نجات دوں یا بزدلی..؟
کب تک ایسا ہوتا رہےگا؟ آج قمر غنی عثمانی ہیں تو کل آپ ہوں گے، آپ کے پیر، آپ کے قائد ہوں گے۔ اور ایک ایک کرکے سبھی کو پاؤں تلے روند دیا جائےگا،اور کوئی کچھ نہیں کر پائےگا۔
کیا حق بولنا، حق لکھنا بھی جرم ہو گیا، انصاف کو آواز دینا کب سے جرم ہو گیا، جتنے یہ سنگھی ہندوتوادی مجرم ہیں، اس سے زیادہ آپ مجرم ہیں۔
آئین ہند نے ہمیں حقوق دیئے ہیں، دستور ہند کی روشنی میں ہم سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، اس لیے چاہے ہمیں جیل جانا پڑے، لاٹھیاں کھانی پڑے، یہ سب چھوٹی چیزیں ہیں۔ اس سے بڑی بڑی مصیبتیں ہمارے اسلاف نے مول لی تھیں۔ وہ عزیمت کا راگ نہیں الاپتے تھے، بلکہ وہ استقامت کا کوہِ گراں بن کر ظالم کے سامنے ڈٹ جایا کرتے تھے۔
اچھا ہوا ہم حضرت بلال حبشی کی جگہ نہیں تھے، ورنہ احد کی جگہ رام رام کہنے لگ جاتے۔
اچھا ہوا ہم امام احمد بن حنبل کی جگہ نہیں تھے، ورنہ خلق قرآن کو مان لیتے۔
اسلاف کی تاریخ بتانے والے، سنانے والے، ناموسِ رسالت پر پہرے داری کا دعوی کرنے والے، ناموس رسالت پر کام کرنے والی تمام تنظمیں، اپنے نام کے آگے بڑے بڑے القابات، "شیر ہندوستان، محافظ ناموس رسالت” لگانے والے مرد مجاہد کہاں ہیں؟
کفر کے نقارے بج رہے ہیں،
لوگ بس انتظار میں ہیں،
کہیں سے کوئی صلاح الدین آجائے، کہیں سے طارق، قاسم اور محمود آجائے، یا کوئ معجزہ ہوجائے اور حکومت یکدم کافر سے مسلمان کے ہاتھ آجائے۔
ارے پیارے صلاح الدین کا جانشین قمر غنی عثمانی میدان میں اتر چکا ہے، اب اسے میدان میں تنہا چھوڑ کر اپنی پیٹھ دیکھا کر نہ بھاگیں۔ اس میں جتنی طاقت ہے، وہ دشمنوں سے مقابلہ کرےگا، مگر میدان سے پیٹھ دِکھا کر بھاگنے والوں کو دنیا کیا کہتی ہے، وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیے پیارے کچھ بول، اس سے پہلے کہ زبان بند کردی جائے.. کچھ نہیں کر سکتے تو کرنے والوں کا ساتھ دیں ، ان کے حوصلوں کو پروان چڑھائیں…
ہم نے بدلا ھے گردشِ دوراں کا رخ
ہمارے ساتھ وہ آۓ جو سر اُٹھا کر چلے





