از قلم: مقبول احمد قادری، دارالعلوم غریب نواز ایوت محل مہاراشٹر
زمانہ ڈھاتا ہے مجھ پر ستم غریب نواز
ادھر بھی کیجئے چشم کرم غریب نواز
مرید نے جو کہا چل ذرا انا ساگر
اٹھا وہ پل میں بڑھاے قدم غریب نواز
میں ہوں غلام تمہارا تمہیں ندا دونگا
ہوا جو مجھ پہ کہیں بھی ستم غریب نواز
میں چوموں تلوں کو تیرے لگاؤں آنکھوں سے
کرو نہ آگے ذرا اب قدم غریب نواز
زمانے والے میری جان کے ہوئے دشمن
بٹھا لو قدموں میں آ جاے دم غریب نواز
کوئ دکھاتا ہے آنکھیں کوئ ڈراتا ہے
کروں میں کیسے مصائب رقم غریب نواز
سبھی کو دیتے ہو بھرتے ہو جھولیاں سب کی
میرے بھی دور ہو رنج و الم غریب نواز
تمہارا خائن و غدار و بے وفا ہے جو
میں سمجھتا ہوں اسے کالعدم غریب نواز
کہو نہ ہند کے واسی کو خوف نہ کھاے
ہمارے ہند میں ہے محترم غریب نواز
ہوا مخالف کشتی ہے دور ہے ساؔحل
بچا لو آکے کرو نہ کرم غریب نواز