تحریر: اے رضویہ ممبئی
جامعہ نظامیہ صالحات کرلا
سر زمین ھند میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلئے لاکھوں مشائخ علماء اور صوفیاء نے نمایاں خدمات اور کارنامے انجام دیئے ہیں، انکی وجود مسعود کی برکتوں نے لوگوں کو متاثر کیا۔ اور ظلمت کدہ شرک کو حق و صداقت، توحید و رسالت کے نور سے منور کیا، ان ستودہ ہستیوں میں سب سے زیادہ روشن نام شیخ المشائخ خواجئہ خواجگان، سلطان الہند، عطاۓ رسولﷺ، امام اربابِ طریقت پیشواۓ اصحابِ حقیقت، معینِ حق و ملت حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے، آپ کا دوامِ اسلامیان ہند کے دلوں پر آج تک ثبت ہے۔ اور آپکا تذکرہ تاریخِ ھند کی مقدس امانت بن چکا ہے۔ ھندستان کے عظیم تاجداروں کی حکمرانی اور رعب و دبدبہ کا دور ختم ہوچکا ہے مگر ھند کے راجا حضرت خواجہ کی روحانی عظمت و سطوت کی حکمرانی آج بھی قائم ہے۔
سبحان اللہ۔۔!!!
تقریباً آٹھ سو سال کا عرصہ گزر گیا، بے شمار انقلابات رونما ہوۓ۔ ہزاروں تاجدار آتے جاتے رہے مگر اجمیر مقدس کی سر زمین اجمیر کے تاجدار کی شوکت اور محبوبیت و مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اور اقتدار والے، فاقہ مست درویش سب کی جبینِ نیاز خواجہ کے آستانے پر جھکتی رہی اور بلا تفریقِ مذھب وملت ہر ایک کے دل میں حضرت خواجہ کی عظمت و عقیدت و محبت کا چراغ جلتا رہا۔
ہر ایک زبان ثناۓ حضرت خواجہ سے تر ہے، سلاطینِ وقت ہوں یا صوفیائے طریقت، اولیاءِ امت ہوں یا علماۓ ملت سب نے اپنے اپنے انداز میں اپنی اپنی بساط کے مطابق حق ثنا خوانی ادا کرنے کیلئے زبان و قلم کو جنبش دیا اور اوصاف و کمالات حضرت خواجہ بیان کئے، اس مقام پر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ثناۓ حضرت خواجہ سے زبانِ امام احمد رضا خاموش ہو، جن کی زندگی کی ہر ہر ادا سے مدحت و انبیاءِ کرام و اولیاۓ عظام عیاں ہے، جنکی زبان اور بیان کو یہ شرف سندحاصل ہے کہ۔۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
آج اگر کچھ لوگ تعصب بغض و حسد کے شکار ہیں بظاہر حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ کے وفادار درحقیقت مسلک خواجہ و رضا کے غدار اور خدا کے قہر و غضب کے حقدار ہیں۔ کیونکہ انکا یہ الزام ہے کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے خواجہ ھند کی عظمت و رفعت کے خطبے نہیں پڑھے۔
سب ان سے جلنے والوں کے گل ہو گئے چراغ
احمد رضا کی شمع فروزاں ہے آج بھی
تو سن لو تم نے اعلی حضرت کو جانا ہی نہیں اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کو سمجھنے کیلئے اعلی نظر و نسل اور اعلٰی ایمان چاہیئے۔ اور عطاۓ رسول سلطان الھند رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرنے کیلۓ اعلی حضرت جیسی قلم اور زبان چاہیئے۔
غداروں جھوٹ بولنا بند کرو اور بنا ثبوت بکواسیں کرنا بند کرو۔
سنو میرے بریلی والے اہلسنت کے امام کیا فرماتے ہیں اپنی کتاب مستطاب فتاوی رضویہ شریف میں ایک سوال کے جواب میں حضور غوث اعظم کی دستگیری اور خواجہ خواجگان معین الدین حسن سنجری رضی اللہ تعالی عنھما کے فیوض و برکات اور شان غریب نوازی کو بڑے جامع اور عمدہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں
” حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ضرور دستگیر ہیں اور حضرت سلطان الھند معین الحق والدین ضرور غریب نواز "
( فتاوی رضویہ جلد یازدھم، ص 43 ناشر؛ رضا اکیڈمی ممبئی)
نوٹ:- یہ اور اسکے علاوہ امام احمد رضا قدس سرہٗ کی کئی عبارتیں راقم السطور نے اپنی تالیف "مقام غوث اعظم اور امام احمد رضا” میں نقل کی ہیں ، وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہمیں یہاں عرض کرنا یہ ہے کہ امام احمد رضا، خواجہ غریب نواز کے ایسے عقیدت مند بلکہ عشق کی حد تک پہنچے ہوۓ شیدائی ہیں کہ بہر تقدیر ان کا دفاع کرتےہیں، ان کی قرار واقعی شان کو اجاگر کرتے اور ان پر کیے گئے کسی طرح کے اعتراض کا دندان شکن جواب بھی دیتے ہیں، مذکورہ بالا عبارت میں جہاں یہ واضح کیا کہ حضرت خواجہ ھند کے بادشاہ حق کی اعانت کرنے والے، دین کے مددگار اور غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، وہیں حضرت کا دفاع کرکے مخالفینِ خواجہ کا رد بھی کیا ہے۔
دھوم تھی ہند میں کفر و اوہام کی
منتظر تھی زمیں حق کے پیغام کی
آپ آئے بہار آئی اسلام کی
گونج اٹھی اذاں خواجئہ خواجگاں