ازقلم: عاصیؔ محمد امیر حسن امجدی رضوی
خادم الافتا و التدریس: الجامعة الصابریہ الرضویہ پریم نگر نگرہ جھانسی یوپی
رشکِ شمس و ہلال ہے خواجہ
در تِرا پر جمال ہے خواجہ
جائے فرح و نہال ہے خواجہ
بحرِ جود و نوال ہے خواجہ
کوئی محروم ہی نہیں جاتا
اس قدر بے مثال ہے خواجہ
عقل ہے دنگ تیری رفعت پر
تجھ میں ایسا کمال ہے خواجہ
ہے تڑپ در پہ بس پہونچنے کی
عشق میں ایسا حال ہے خواجہ
دور کافور کیجئے ہر غم
طاری رنج و ملال ہےخواجہ
ہے پرے فہم سے ترا واللہ
جومعرفت میں قال ہےخواجہ
کام پل میں کیا ” گرفتارم ،،
قول کیا پر جلال ہے خواجہ
کبرِ ساحر جو توڑ کر رکھ دے
یوں عجب تیری نعل ہے خواجہ
جو بھی ٹکرایا آپ سے سمجھو!
پھر تو اس کا زوال ہے خواجہ
آرزو ہے مگر نہیں کچھ بھی
پاس مال و منال ہے خواجہ
کاش تقبیل در کی مل جائے
آنے والا جو سال ہے خواجہ
ہے پسرتو” غیاثِ دیں،، کا اور
"نور بی بی،، کا لال ہے خواجہ
مرتبہ ہے ترا بہت اعلیٰ
تو محمد کی آل ہے خواجہ
وہ کبھی حق سے ہٹ نہیں سکتا
جسکا تجھ سےوصال ہےخواجہ
مرا رشتہ کبھی نہ ٹوٹے گا
تجھ سے جو اتصال ہے خواجہ
عاشقوں کو نکالے بھارت سے
کس میں اتنی مجال ہے خواجہ
ہو کسی دن نہ تیراعالم میں
ذکر’ بالکل محال ہے خواجہ
خوب اعلیٰ ہواور عاصیؔ کی
جو بھی فکر و خیال ہےخواجہ