(تضمین بر کلامِ استاذِ زمن حضرتِ علامہ حسن)
ازقلم: شمیم رضا اویسی امجدی
خادم التدريس طیبۃ العلماء جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
عمر بھر کھایا فقط میں نے نوالہ تیرا
پی کے مدہوش میں رہتا ہوں پیالہ تیرا
سر پہ رہتا ہے ہر اِک آن دوشالہ تیرا
خواجہِ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
دوجہاں میں تجھے حاصل ہے شرافت پیارے
تیری یکتا ہے زمانے میں ولایت پیارے
تیرے قطرے میں بھی دریا کی ہے وسعت پیارے
ہے تری ذات عجب بحر عقیدت پیارے
کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا
دل میں اک رنج ہے اور عالمِ تنہائی ہے
بے سہارا ہوں میں، ہر کوئی تماشائی ہے
چارہ گر کون ہے اور کس کی مسیحائی ہے؟
ترے ذرے پہ معاصی کی گھٹا چھائی ہے
اس طرف بھی کبھی اے مہر ہو جلوہ تیرا
شوکتِ مذہبِ اسلام، صداقت کا علم
ہے عجب دلکش و زیبائی ، عجب جاہ و حشم
جس کو کہتے ہیں سبھی اہلِ محبت کا حرم
کیا مہک ہے کہ معطر ہے دماغِ عالم
تختہِ گلشنِ فردوس ہے روضہ تیرا
لوحِ ہستی پہ منقش ترے جلوؤں کا ظہور
خاک کر ڈالا ترے فقر نے باطل کا غرور
کوئی اس رفعت و شوکت کو کرے، کیسے عبور
کرسی ڈالی تری تخت شہ جیلاں کے حضور
کتنا اونچا کیا اللہَ نے پایا تیرا
چرخِ ملت کے شمیم آج جو یہ شاہیں ہیں
کیوں سراسیمہ و حیران ہیں کیوں غمگیں ہیں
بادِ فتنہ سے جو مذہب کے چمن رنگیں ہیں
محی دیں غوث ہیں اور خواجہ معین الدیں ہیں
اے حسن کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا