از قلم: بنت مفتی عبدالمالک مصباحی، جمشیدپور
اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعت مخلص دوست بھی ہیں – حقیقت ہے کہ آج مخلصین کم یاب ہیں لیکن نایاب نہیں – آج بھی بہت خوش نصیب ایسے ہیں جنھیں اللہ رب العزت نے مخلص دوستوں یا دوست سے نوازا ہے –
واقعی دوستی کا دم بھرنے والے تو بہت ملتے ہیں لیکن اگر آپ کو مخلص اور سچا دوست مل گیا؛ ایسا دوست جو آپ کے دین و دنیا میں آپ کا معاون اور ساتھی ہو تو ضرور آپ بھی خوش قسمت ہیں؛ کہ اچھے دوست کا فائدہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہے؛ اس کو حضور ﷺ نے بڑی خوبصورتی سے مثال کے ذریعے سمجھایا ہے کہ : "اچھے برے ساتھی کی مثال مُشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے) والے کی طرح ہے، مُشک اٹھانے والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تُو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تُو اس سے بدبو پائے گا” ۔(مسلم، ص1084،حدیث 6692)
پھر ہمیں چاہیے کہ اپنے دوستوں کا جائزہ لیں اگر خوش قسمتی سے ہمارے دوست معطر اور خوشبودار ہیں تو پھر ان کی حفاظت کریں؛ ان کو سنبھال کر خوش حال اور خوشبو دار ہی رکھیں کہیں آپ کی کوتاہی اور لا پرواہی کی وجہ سے وہ خوشبو آپ سے دور نہ ہو جائے –
بہت افسوس ہوتا ہے ان خود غرضوں پر جو بلندی پر پہنچ کر اپنے پرانے مخلصین کو ٹھکرا دیتے ہیں؛ زندگی کی مصروفیات اپنی جگہ پر ضرور ہیں اور بہت ہیں لیکن اگر آپ نے کسی سے دوستی کا دم بھرا تھا؛ ان کے دکھ و سکھ میں کام آنے کا عہد کیا تھا تو کبھی بھی انھیں فراموش نہ کریں!
ہر شئی اور ہر رشتے کی طرح دوستی کا رشتہ بھی بڑا اہم ہے؛ اس کا احساس زندگی کے کئی درد ناک موڑ پر ہوتا ہے؛ لہذا قدر کریں! لوگوں کو سنبھالنا، قریب کرنا اور ان کے جذبات و احساسات کی قدر کرنا سیکھیں! تاکہ آپ بھی خوش رہیں اور آپ کا ساتھ بھی –
دوستوں اور مقربین کو سنبھالنے اور بچانے کا طریقہ بہت پہلے کسی لیکچرار سے سنا تھا وہ اپنے بارے میں بتا رہے تھے کہ_ میں دور طالب علمی میں ایک دفعہ بڑی مشکل میں پھنس گیا تھا اور اپنے آپ کو بڑا تنہا محسوس کر رہا تھا اس وقت میں نے ایک لسٹ تیار کی تھی؛ جس میں تین کالم بنائے تھے : ایک کالم ان دوستوں کا جو اکثر میرے رابطے میں رہتے ہیں، میری خبر رکھتے ہیں اور خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں – دوسرا کالم ان لوگوں کا جن سے بس سلام اور رسمی خیریت کا رابطہ ہے ملے تو ٹھیک نہ ملے تو کوئی بات نہیں – تیسرا کالم ایسے لوگوں کا جن سے بس پہچان ہے اور مہینوں برسوں میں کبھی یاد آ جاتے ہیں یا یاد کر لیتے ہیں – اب وہ کہتے ہیں کہ اس لسٹ کے تیار کرنے کے بعد مجھے ہمت ملی اور میری تنہائی دور ہوئی؛ میں جو مایوس ہو چکا تھا کہ میرا کوئی نہیں اب وہ مایوسی دور ہوئی اور واقعی میں نے اپنے متعلقین میں سے جن کو جیسا مقام دیا تھا وہ اسی لائق نکلے؛ میں نے اسی وقت سے ان تینوں کالم والوں کے ساتھ ویسے ہی رابطے بنا لیے جیسے ان کے میرے ساتھ تھے –
اب فالتو لوگوں پر وقت ضائع کرنا چھوڑ دیا اور پہلے کالم والوں کی مزید قدر کرنی شروع کر دی؛ اور دیکھیں کہ آج تیس گزر گئے اس لیسٹ کو بنائے ہوئے لیکن آج بھی میرے پہلے کالم میں وہی میرے پرانے دوست ہیں کیوں کہ میں نے اسی وقت سے ان کی قدر کرنی شروع کر دی تھی انتہی-
یہ بات حق ہے کہ فالتو نئے نئے لوگوں سے گھنٹوں گھنٹوں بات کر کے برسوں کے لیے گُم ہو جانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے پرانے مخلصین کو سنبھالیں ان کے لیے وقت نکالیں اور ان کے خوشی و غم کا خیال رکھیں –
یاد رہے کہ__جس طرح تمام رشتے کے مختلف حقوق ہیں اسی طرح دوستی کے بھی بڑے پیارے اصول و ضوابط اور کچھ حقوق ہیں؛ انھیں جان لینا چاہیے اور ان کو اپنا لینا چاہیے – دوستی کے حقوق پر اسلاف نے کئی کتب میں روشنی ڈالی ہے؛ ان میں سے ایک حجتہ الإسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کی احیاء العلوم بھی ہے؛ اس کا مطالعہ ہر ایک کو کر لینا چاہیے عربی کے ساتھ ساتھ یہ کتاب اردو میں بھی موجود ہے –
اس کے بعد وہ حضرات جن کو اللہ نے مخلص دوست سے نوازا ہے وہ اپنے مخلصین کی قدر کریں اور جنھیں اس مفاد پرستی کے دور میں کوئی مخلص نہ مل سکا وہ اچھے دوست کی تلاش کریں اللہ نصیب کرے –
جو خوشی تمھارے قریب ہو ، وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو، تیری زندگی پہ محیط ہو