حرام حلال کی بحث چھیڑ کر مسلمانوں کو باقی دنیا سے الگ تھلگ نہ کیا جائے: مفتی منظور ضیائی
ممبئی: ۲۰/دسمبر (اسٹاف رپورٹر) بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر مفتی منظور ضیائی نے ان خبروں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں مذہب کے حوالے سے کورونا ویکسین کے حرام یا حلال ہونے پر بحث کی گئی ہے ۔مفتی منظور ضیائی نے کہا کہ ابھی یہ معاملہ انڈونیشیا سے اٹھایا گیا ہے اور میڈیا میں اس بات کو لیکر تجسس پایا جا رہا ہے کہ علمائے کرام کی اس معاملہ میں کیا رائے ہے ۔مفتی ضیائی نے کہا کہ اُن سے میڈیا کے لوگوںنے اس موضوع پر مختلف سوالات کئے ہیں ۔جہاں تک میرا ذاتی موقف ہے میں اس بات کے حق میں ہوں کہ جان بچانے اور کورونا جیسے مضر مرض سے نجات پانے کیلئے کورونا ویکسین کا استعمال بلاقراحت جائز ہے ۔مفتی ضیائی نے کہا کہ بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوںpfizer,moderna or AstraZeneca نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اُن کے ذریعے تیار کی گئی ویکسین میں خنجیر کے اعضا کی آمیزش نہیں ہے ۔مفتی ضیائی نے کہا کہ حرام اور حلال کا تعلق اسلامی قوانین میں بہت واضح ہےاور اگر کسی دور میں کوئی خاص مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو علمائے کرام بر وقت اُس کی رہنمائی فرماتے ہیں ۔مفتی ضیائی نے کہا کہ جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دے دیا ہے اُس کو جائز قرار دینے کا اختیار ہر گز کسی کو نہیں ہے لیکن کسی سنگین ،پیچیدہ اور لا علاج مرض کیلئے اس کی محدود پیمانے پر گنجائش نکل سکتی ہے کیونکہ انسان کی جان بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔مفتی ضیائی نے کہا کہ کورونا ایک ایسی بیماری ہے جس سے ہندوستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں اس کے علاوہ یہ بیماری ایسی ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتی ہے ۔اسلئے ایسی بیماری کے ویکسین کے استعمال کی پوری گنجائش موجود ہے ۔مفتی ضیائی نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ طبی اورعلمی مسئلہ ہے اور ان شعبوں کے ماہرین مل کر اس مسئلہ کا حل تلاش کر سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر اس پر عوامی سطح پر کورونا ویکسین کے حرام یا حلال ہونے پر بحث ہوگئی تو اس سے مسلمانوں میں خواہ مخواہ بد گمانی اور کنفیوزن پیدا ہوگا جو کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بحث چھیڑ کر پوری دنیا میں مسلمانوں کے تعلق سے بدگمانی پیدا کرنے کی ایک سازش بھی ہو سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ بد گمانی جڑ پکڑ گئی تو جہاں ایک طرف مسلمانوں کو پوری دنیا میں شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے ایک جگہ سےدوسری جگہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک جانے میں مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں اوردہشت گردی کے بعد یہ دوسرا لیبل ہوگا جو مسلمانوں پر چسپاں کیا جائے گا ۔مفتی ضیائی نے مزید کہا کہ وہ بہت جلد اس مسئلے پرچوٹی کے علمائے کرام اور معالجین سے رابطہ کرکے اپنا تفصیلی موقف پیش کریںگے لیکن اُس وقت تک بہتر ہوگا کہ کسی بھی طرح کے غیر ضروری بیان بازی اور بحث اور مباحثہ سے گریز کیا جائے۔مفتی ضیائی نےدنیا بھر کی دوا ساز کمپنیوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات واحساسات کا احترام کریں اور پوری کوشش کریں کہ اُن کی ویکسین میں ایسی کسی چیز کی آمیزش نہ ہو جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔انہوں نے کہا کہ یہ احتیاط اُن کمپنیوں کیلئے کاروباری طور پر بھی فائدہ مند ثابت ہوگا کیونکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد سوا ارب سے زیادہ ہے اور پچاس سے زائد اسلامی ملک دنیا کے نقشے پرموجود ہیں اور یہ ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے ۔مفتی صاحب نے کہا کہ ماضی میں پولیو اور دیگر بیماریوں کے ٹیکوں کے سلسلے میں کچھ غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی اس لئے اس مرتبہ اُن چیزوں کو دوہرایا نہ جائے اور حکومت ہند سے ایک درخواست بھی ہے کہ وہ کرونا ویکسین کے حصول اور تصدیق کے عمل میں مسلمان عالم دین کو بھی شامل کریں تاکہ لوگوں کو اس بات کا یقین دلا کر کسی بھی طرح کی غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔
آخر میں مفتی صاحب نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا سے خود کو بھی بچائیں اور پورے سماج کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کیلئےاپنا تعاون پیش کریں۔