ازقلم: سید عزیزالرحمٰن
Sayyedazeezurrahman@gmail.com
دوستو! یہ ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں ہرمذہب کے ماننے والے کو اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے،اسی طرح ملک کاآٸین ہر کسی کو سیاسی پارٹی بنانے کی بھی اجازت دیتا ہے الیکشن لڑنے کا اختیار دیتا ہے ،کوٸی پارٹی نہ کسی مخصوص مذہب کی ہوتی ہے نہ کسی مخصوص ذات و برادری کی ہوتی ہے کیوں کہ پارٹی کا رجسٹریشن سیکولرزم کی بنیادوں پر ہوتا ہے ،اس کے باوجود پارٹی کے بانیان اور اعلیٰ کمان جس مذہب و نظریات یابرادری کے ہوتے ہیں اسی مذہب و برادری کی طرف خود بخود پارٹی منسوب کی جانے لگتی ہے اگرچہ ہر پارٹی ہرکسی کی ہوتی ہے ۔
دوستو!اس ملک میں بی جے پی ایک ایسی بھی پارٹی ہے جس کی سرپرستی آر ایس ایس جیسی تنظیم کرتی ہے جس کے کارکنان جمہوریت پریقین نہیں رکھتے نہ ملک کے دستور و آٸین کو دل سے مانتے ہیں ایسے لوگوں کو برملا قوانین کی کاپیوں کو پھاڑتے، پیروں تلے روندتے اور نذرِآتش کرتے ہوۓ دیکھا گیا ہے اس کے باوجود انہوں نے (جمہوریت کا راستہ اختیار کرتے ہوۓ ، اقتدار کے حصول کے لیے جہدِپیہم کرتے ہوۓ سیاست میں سرگرم رہتے ہوۓ)آج اقتدار ِاعلیٰ پر قبضہ جمالیا ہے۔
کانکریس ایک ایسی پارٹی ہے جو بہت پرانی ہے ہندوستان کا مسلمان اس کا مسلسل ساتھ دیتارہااور آج بھی دیتا آرہا ہے لیکن نہ تو وہ پارٹی ہماری کبھی وکالت کرسکی نہ ہماری کبھی آواز اٹھا سکی ، نہ ہی ہماری اپنی قیادت کہلاٸی جا سکی نہ کہلاٸی جا سکتی ہے۔
عزیزان گرامی قدر!دانشوران ملت اسلامیہ ہندیہ کی مشاورت اور تعاون سے ملاٸم سنگھ یادو نے سماج وادی پارٹی کی داغ بیل رکھی اور مسلمانوں کے عظیم خیرخواہ اور مسیحا کا خطاب حاصل کرکے اپنی سیاست چمکاٸی چند مسلمان ماسٹروں کو سرکاری ٹیچر بنانے کے علاوہ وہ کبھی بھی مسلمانوں سے کیے گیے وعدے نہ پورا کرسکے ۔نہ ہی مسلمانوں پر ہورہے مظالم کے خلاف وہ کھل کر بول سکے ۔مسلمانوں نے اس پارٹی کا بھی ساتھ دینے میں کوٸی کسر نہ چھوڑی اور آج بھی بہت سے بھاٸی اسی پارٹی کے ساتھ ہیں جب کہ وہ پارٹی بھی نہ تو کبھی ہماری قیادت کہلاٸی اور نہ کہلاٸی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے،وہ پارٹی کن کی طرف منسوب ہے کن کی کہلاٸی جارہی ہے کن کا اس سے زیادہ تر بھلا ہوا ہے ؟ آپ بخوبی جانتے ہیں یہ امر کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اس پارٹی نے اب مغربی یوپی کے قدآور اسمبلی امیدواروں کو ٹکٹ نہ دے کرکے یہ ثابت کردیا ہے تمہاری کوٸی حیثیت نہیں ہےاس لیے کہ تم منتشر ہو تمہارا ووٹ متحد نہیں ہے جاٹ جو تعداد میں ان سے کم ہے ان کے سامنے سپا گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہے اس لیے کہ ان کا ووٹ متحد ہے۔
بی ایس پی جس کے کارکنان گھر گھر جاکر پہلے اپنی قوم کو متحد کرتے رہے اور جس قدر مقدر تھا کیا جب کہ اس قوم کے افراد اس ملک میں کمزور و ذلیل سمجھے جاتے رہے عدداًبھی وہ مسلمانوں کی بہ نسبت قلیل ہی ہیں ۔مسلمانوں نے سوچا کہ یہ پارٹی ان کا بھلا کردےگی مسلمانوں نے اس کا بھی دامن تھام لیا جب کہ اس کی اعلیٰ کمان نے کبھی بھی دبے لفظوں بھی مسلمانوں کے حق میں کوٸی بات نہیں کی۔ اگر وہ الیکشن میں فتح پاگٸیں تو اپنی عقلمندی اور ہوشیاری پر اپنی پیٹھ تھپتھپاتی رہیں اور شکست ملی تو مسلمانوں کو ان کی پارٹی کو ووٹ نہ دینے کا طعنہ دے دیا۔۔طلاق ثلاثہ سی اے اے جیسے اہم موقعوں پر بالکل خاموش رہیں ۔
دوستو!ایک بات بطور خاص عرض ہے کہ ان سب پارٹیوں میں ہمارا کوٸی چہرہ ضرور ہوتا ہے جو ہمیں کھینچتا ہے جس کی وجہ سے مسلمان الیکشن کے موقع پر تذبذب اور کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے کہ کس پارٹی کی طرف جاۓ؟ جس کے نتیجہ میں ہمارا ووٹ منقسم و منتشر ہوجاتا ہے۔
اس میں کوٸی شبہ نہیں کہ ہرشخص آزاد ہے بااختیار ہےاس کا دل جدھر چاہے ادھر جاۓ چاہے جس پارٹی کو جو اسے سمجھ میں آتی ہے ووٹ اور سپورٹ کرے، نہ کسی پرکوٸی زور ہے نہ جبر ہے البتہ کچھ سوالات و گزارشات ضرور ہیں کہ کب تک اپنے ووٹ سبھی پارٹیوں کو دے کر اپنا شیرازہ بکھیرتے رہیں گے ؟اپنی پہچان مٹاتے رہیں گے کب تک ہرکسی کا جھنڈا اٹھاتے پھریں گے؟ کب تک اللہ کے حکم ”ولاتفرقوا “ کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے؟کب تک ان مختلف پارٹیوں کو خوش کرنے کی ناکام کوشش میں اپنی نسلوں کا مستقبل بگاڑنے کے کام کرتے رہیں گے؟کب تک یہ کہہ کر کہ ”اس ملک میں مسلمان حکمران نہیں بن سکتا“ناامیدی کا کفر کرتے رہیں گے؟کب تک سیاست اور اس کے ذریعہ سے حکومت سازی کرنے کے بارے میں نبیﷺ کے طریقہ کار کو نظرانداز کرتے رہیں گے؟ کب تک خلاف سنت پیمبرﷺ غیروں کو اپناقاٸد بناتے پھرتے رہیں گے؟کب تک شیطان کے کمزور کید و مکر کو اپنی ناسمجھی کی وجہ سے قوی سمجھتے رہیں گے؟
محترم قارٸین! جس نبی نے کھانے،پینے،سونے، چلنے ،اٹھنے بیٹھنے ، گھرمیں رہنے باہر رہنے ،بیوی کے ساتھ رہنے ، اپنوں کے ساتھ زندگی گزارنے غیروں کے ساتھ رہنے ،پڑوسیوں کے ساتھ رہنےکے طریقے بتلاۓ تجارت، زراعت، معاشرت، معاملت ،کا طریقہ بتلایا کیا اس نبی نے سیاست کا طریقہ نہیں بتلایا ہوگا؟ کیا اس کی سیرت میں سیاست کاطریقہ موجود نہیں ہے ؟اگر ہے اور بلاشبہ ہے تو پھر سیاست میں اس کی سیرت کو کیوں چھوڑا جاۓ؟ کیا اس کے طریقہ کو چھوڑ کر کامیابی مل سکتی ہے؟کیا نبی علیہ السلام نے ہجرت مدینہ کے بعد جو معاہدے کیے اس میں قیادت غیروں کے ہاتھوں سونپ دی تھی ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو ہم غیروں کے ہاتھوں میں قیادت کیوں سونپ دیتے ہیں ؟ہم کیوں غیروں کی قیادت قبول کرلیتے ہیں ؟کیا نبی کی سنت کی یہ خلاف ورزی نہیں ہے؟اگر یہ نبی کے طریق کی خلاف ورزی ہے اور یقینا ہے تو پھر ہم کیوں کر فلاح و بہبود پاسکتے ہیں
؟جس کے س
اتھ بھی چار مسلمان اکٹھا ہوگیے وہ اپنی پارٹی بنالیتا ہے اور مسلمانوں کے ہی کاندھوں پر سوار ہوکر اپنی سیاست چمکاتا ہے۔
عزیزو!دوستو! تین چار سالوں سے جو یہ مشن جاری ہے اس میں ہم بہت حد تک کامیاب بھی ہوتے نظر آرہے ہیں لیکن جو نااتفاقیوں کا زنگ ہمارے قلوب پر لگاہوا ہےاس کو صیقل کرنے میں وقت درکار ہے۔محنت درکار ہے۔جہد مسلسل درکار ہے اپنی انا کی قربانی بھی دینی پڑسکتی ہے جذبات کو قربان کرنا پڑسکتا ہے ۔بہت زیرکی اور ہوش وحواس سے کام کرنے کی ضرورت ہے شیطان چاہتا ہے کہ ہم متفرق ہی رہیں ۔ہمیں قوم کے مفاد کو بطور خاص امت مسلمہ ہندیہ کے مفاد کو اپنے ذاتی اغراض پر ترجیح دینا ہے۔ہمیں ٹوٹے ہوٶں کو جوڑنا ہے جو جڑے ہیں ان کو اپنے سے جدا نہیں ہونے دینا ہے اس سلسلہ میں بہت عقلمندی کا ثبوت دینا ہے ہماری سیاسی طاقت کس طرح مجتمع ہوجاۓ اس کے لیے باہم مشاورت کرنا ہے بغیر تامل کے عجلت میں کوٸی فیصلہ نہیں کرنا ہےکن کو کیا ذمہ داریاں دینی ہے اس کے بارے میں بھی بہت غوروخوض سے کام لینا ہے ہمیں ملک کے ہر شہر بطور خاص یوپی کے ہرشہر اور قریہ کے لوگوں کے حالات سے بھی واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم سیاسی اتحاد کے کام کو آگے نہیں بڑھا سکتے اپنے مشن میں اس کے بغیر ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے،روابط بڑھانے کی ضرورت ہےبڑے پیمانے پر ممبرسازی کی مہم جاری کرنی ہے، ہمارے جو بھی بھاٸی ہیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے جڑے ہیں انہیں بہت پیار سے اپنے قریب کرنے کی ضرورت ہے ان کو ہرچند سمجھانے کی ضرورت ہے ہرطرح کی کشیدگی سےاحتراز ضروری ہے ۔کسی بھی تنظیم،، جماعت یا کسی بھی شخصیت پر منفی تبصرہ سے پرہیز کرتے ہوۓ مثبت انداز میں اپنے موقف کو سب کے سامنے رکھنا ہے ۔اللہ کے حکم کی تکمیل کے لیے، ہندوستانی قوم اور امت مسلمہ ہندیہ کی ترقی کے لیے اپنی ذاتی اغراض کو مٶخر رکھنا ہے ۔۔۔
دوستو!پیس پارٹی امن و سلامتی والی بھید بھاٶ سے دور پارٹی ہے ایک مخلص بندے نے اس پارٹی کی اساس رکھی ہے جو ہرطرح کے تکبر و تصنع سے دور ہے جو قوم کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے ہر وقت اس ادھیڑ بن میں رہتا ہے کہ قوم کس طرح بدحالی سے نکل کرخوش حالی کے راستہ پر گامزن ہوجاۓ کس طرح قوم ذلت سے نکل کر عزت کے راستہ پر چل پڑے ،کس طرح ہر ہندوستانی کو اس کا حق بآسانی مل جاۓ، کس طرح اس ملک میں عدل کا نفاذ ہوجاۓ ،ظلم وجور ختم ہوجاۓ ۔یہی وجہ ہے اس رہنما کے ساتھ سنجیدہ طبقہ لگا ہوا ہے جو فہم وفراست کے اعتبار سے بھی کمزور نہیں ہے ،وقت کی نزاکتوں کو سمجھنے والے لوگ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں البتہ اس عظیم کام کےلیے آپ کا بھی ساتھ چاہیے آپ کا بھی مشورہ چاہیے اگر آپ نے بھی ساتھ دیا ہوشمندی سے کام لیا ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر ساتھ لگ گیے تو یہ کارواں بہت جلد منزل مقصود تک پہنچ جاۓ گا۔۔۔۔۔۔۔ ان شآ ٕ اللہ
دوستو! یہ شکوہ چھوڑ دیں کہ کوٸی سیکولر پارٹی ہمارے ساتھ اتحاد نہیں کرتی بلکہ پہلے ہم خود متحد ہوں ایک جھنڈے تلے آٸیں اور اگرکسی ایسی بھی پارٹی سے جڑے ہیں جو اگرچہ پیس پارٹی کے علاوہ ہے تب بھی آپ ہر ممکن اپنی قیادت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں جس دن ہم ایک جھنڈے کے نیچے آگیے کسی عوامی سیاسی ریلی میں اپنی بھیڑ دکھا دٸیے اس دن ایسی تمام سیاسی پارٹیوں کو ہمارے ساتھ اتحاد کرنا پڑے گا جو ہمارے ووٹ کی وجہ سے ہی برسر اقتدار رہتی ہیں، وہ ہمارے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتیں۔ ہم اس ملک میں دوسری بڑی اکثریت ہیں ہمارے ہی ووٹ تو فتح و شکست کے فیصلے کرتے ہیں یعنی ہمارا ہی ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔الیکشن کے موقع پر ہر طرح کی بصیرت سے ہمیں کام لینا ہے لیکن ہمیں ہرجگہ ہر شہر کے مسلمانوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے ان کا سیاسی شعور بےدار کرنا ہم پرلازم ہے ۔
دوستو! یوپی میں خاص طور سے پیس پارٹی کی حمایت کرنی ہے اسی کو مضبوط کرنا ہے اسی کاسپورٹ کرنا کیوں کہ یہ پارٹی یوپی کی ہی ہے نیز پیس پارٹی کے ساتھ ہندو مسلمان دلت وغیرہ ہرطرح کے لوگ جڑے ہیں علما ہی اس کی سرپرستی کررہے ہیں جنہیں سیاسی بصیرت حاصل ہے البتہ جو بھی مسلم سیاسی قاٸدین ہیں جن کی خود کی اپنی پارٹیاں ہیں انہیں بھی سرجوڑ کر بیٹھنا ہے اور اتحاد پر مشاورت کرنا لازم ہے جو بھی اس میں پہل کرے گا وہی فاتح حقیقی ہوگا۔۔
الحمد اللہ اب مجلس اور اس کے اتحادیوں اور پیس پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے درمیان مفاہمت بھی ہوچکی اس لیے ان اتحادیوں کو مضبوط طریقے سے ووٹ کریں۔
یہ سیاست کا تقاضا ہے سیاست ہی تو حکومت سازی کا راستہ ہے اگر سیاست نہیں ہوگی تو حکومت نہیں ہوگی اگر حکومت نہیں ہوگی تو نہ عزت و آبرو کی حفاظت ممکن ہے نہ زبان و تہذیب اور نہ شعاٸر و تشخصات کی حفاظت ممکن ہے
جس طرح۔۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ یعنی اگر سیاست ہے لیکن دین نہیں ہے تو ظلم کو بڑھاوا ملتا ہے جیسا کہ خود ہمارے ملک میں ہورہا ہے کہ سیاست ہے مگر دین نہیں ہے اس لیے حکمران طبقہ نے ظلم کرنے میں اپنوں کو بھی نہیں بخشا۔
اسی طرح دین سے سیاست جدا ہوجاۓ تو ذلت و پسپاٸی رہ جاتی ہے جیسا کہ آج ہم ہندوستانی مسلمانوں کا حال ہے ہمارے پاس دین ہے مدارس و مساجد ہیں دینی جلسے جلوس ہورہے ہیں اخلاقی اعتبار سے مسمان اتنا اعلیٰ ہے کہ غیر بھی اس کی شہادت دیتے ہیں پوری دنیا میں سب سے زیادہ مدارس و مساجد ہندوستان میں ہیں علما ٕ کی بھی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو سیاست و حکمرانی کی ۔جب ہم اس ملک میں کم تھے مگر حکمران تھے تو ہماری عزت تھی ہمارا احترام تھا اوروں پر ہمارا رعب تھا ،یہ لال قلعہ ،جامع مسجد تاج محل قطب مینار سب ہمار
ے ہی عروجِ
ماضی کے قصے بیان کررہے ہیں مگر ہاۓ افسوس ان سب کے باوجود جب آج ہم حکمران نہیں نہ حکمرانی میں شرکت ہے تو ہم ذلیل وخوار ہیں ہمارے مدرسوں ہماری مسجدوں کو مسمار کیاجارہا ہے ہماری بستیوں کو جلایا جارہا ہے ،ہمارے بے قصورجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساکر جیلوں میں ٹھونساجارہا ہے ۔
عزیزو!
یاد رکھیں سیاست اور حکومت کے بغیر نہ ہم زبان کی حفاظت کرسکتے ہیں نہ تہذیب کی نہ ہی شعاٸر کی نہ عزت و آبرو اورمال و متاع اور آل و اولاد کی، جو قومیں سیاست سے دور ہوتی ہیں ذلت ان کا مقدر بن جاتی ہے پھر وہ غلام و محکوم بن جاتی ہیں۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں