نتیجۂ فکر: عبدالمبین فیضی، مہراج گنج
تو گل، مدحِ آقا کے دل میں اگالے
گُلِستانِ دل کو یوں اپنے سجالے
ارے دیکھ رے دیکھ” کون آرہے ہیں
اے دل” خود کو غار حرا تو بنالے
سکوں چاہئے گر تجھے” سن یہ نسخہ
اے دل” ان کی یادوں کی محفل سجالے
میں کیسے کہوں چاند ان کی طرح ہے
ہیں جب ان کے نعلین اس سے نرالے
جو دیکھے تجھے” ان کا دیوانہ سمجھے
تو ان کی محبت یوں” دل میں بسا لے
ترے جسم سے آۓ بھُننِے کی خوشبو
یوں عشقِ نبی میں تو دل کو جلا لے
لگایا ہے غازہ درِ شہ کا رخ پر
اےمہتاب” آ مجھ سےآنکھیں ملا لے
رخِ والضحائی ہے اتنا منور
ہیں شمس وقمرمیں اسی سے اجالے
تڑپتی ہے مچھلی بنا "آب” جیسے
توفرقت میں ان کی” یوں حالت بنالے
بنا ان کے بس ایک پتلا ہے تو! سن
اسی واسطے خود کو ان کا بنا لے
مہ و مہر ہوجائیں گے پانی پانی
اگر رخ سے اپنے وہ” گیسو ہٹالے
تخیل میں گر تازگی چاہئے” تو
تصور میں روضہ نبی کا بسالے
وہ منت کشِ جام وبادہ نہ ہوگا
مئے عشقِ شاہِ مدینہ جو پالے
تصور میں شہرِ نبی کا ہے نقشہ
اےموت” آ مجھے اب گلے سے لگا لے
ہمیشہ اسے” یاد رکھے گی دنیا
جوان کی محبت میں خودکو مٹالے
اسے کیسے بھائے گی دنیا کی رونق
جو نظروں میں شہرِ مدینہ بسالے
ہر اک گام رکھنا” ادب لازمی تو
وہ شہر حرم ہے” ارے جانے والے
رضاۓ الہی اگر چاہتا ہے
تو جا پہلےجاکر نبی کو منا لے
سرِ حشر رسوا نہ تو ہونے دینا
مری آبرو ہے ترے ہی حوالے
یہ فرقت نہ اب مجھ سے برداشت ہوگی
اے "والی کل” مجھ کو طیبہ بلا لے
مہکتی رہیں گی” سبھی اس کی نسلیں
پسینہ جو شاہ عرب کا لگا لے
ثناۓ شہ دیں کی برکت سے فیضی
تو خوابیدہ قسمت کو اپنی جگالے