تحریر: عین الحق امینی قاسمی
ظفر صاحب مرحوم کا نہ میں شاگرد ہوں اور نہ وہ میرے کلاس ٹیچر ، مگر اپنے بعض علیگ دوستوں سے ان کی خوبیوں سے متعلق بارہا سنتا رہا ہوں ،جس کا عکس ونقش ذہن میں محفوظ ہے ،اسکول وکالج اور یونیورسٹیوں کی زندگی عموماغیر مذہبی ہوتی ہے ،مگر اے ایم یو کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ آج بھی اپنی قدیم اسلامی روایات وامتیازات کے حوالے سے دوسری ممتاز یونیورسٹیوں میں مختلف جہتوں سے منفر د مقام کا حامل ہے ،وہاں کے اساتذہ و طلباء اپنی شائستگی ، بلند اخلاقی اور ظاہری وضع قطع میں دور سے پہچان لئے جاتے ہیں ،پروفیسر ظفر احمد صدیقی بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ماحول میں اپنی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے نہ صرف طلباء میں ،بلکہ اساتذہ تک میں عظمت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں ،وہ پہلے ایک عالم دین تھے پھر پروفیسر ۔ مولانا کی خوبی تھی کہ انہوں نے عالمانہ شان وجمال کو ہمیشہ قائم رکھا ،وہ ندوہ کے پڑھے ہوئے تھے اور علی گڑھ آگئے ؛ مگر کبھی انہوں نے خواہ مخواہ کی دانشوری کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہیں دیا ،بلکہ قدیم صالح اور جدید نافع پر مضبوطی سے قائم رہے ،دوسروں کواپنے افکارو لباس کا اسیر تو کیا ؛مگر وہ خود اپنے اکابر اساتذہ کی وضع پر مطمئن تھے ۔
کم لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو ” جیسا دیس ،ویسا بھیس” کے محاورے کو سرے سے نکارکر جینے کے عادی ہوتے ہیں ،ورنہ بہت سوں کو خوش خیالی میں بہتے دیکھا گیا ہے ،ممکن ہے کہ یہ ان کی مجبوری بھی ہو ،مگر ظفر صاحب نے ان مجبوریوں کو جھیلا ،بہتے دھارے میں بہنے کے بجائے مخلاف سمت چلنے کی اپنے اندر سکت پیدا کی ، تب یہ چیزان کی شرافت وعزت نفس کی علامت بن گئی ۔
ظفر صاحب اپنے پختہ علم ومطالعے کے ذریعے ہمیشہ قدروں میں رہے ،انہوں نے اپنے فکر وفن سے جس طرح بھرم کو قائم رکھا ، وہ نہ صرف آج کے مدارس کے طلبا کے لئے خاموش پیغام اور مثبت دعوت ہے ؛بلکہ خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ دیکھا دیکھی اس عمل سے بعض دیگر اساتذہ نے بھی عملی زندگی میں اپنے بال وپر درست کرنے کی قابل تعریف کوشش کی، جس سے اساتذہ و طلبا کے بیچ اپنے قد کو انہوں نے مزید مستحکم و مستحسن کیا ۔ظفر صاحب دیکھنے میں بھی باوقار تھے اور اس سے زیادہ وہ جب طلباء کو باوقار درس دیتے تب ان کی علمی وجاہت ، کثرت مطالعہ ،فکری وفنی صلاحیت ،متعلقہ مضمون پر گرفت ،طلباءکے ساتھ شفقت ومحبت ،کچھ دینے اور دلوں میں اتار دینے کی بے لوث چاہت جیسی صفتیں، ان کی شخصی بلند قامتی سمیت ،دیگر شخصیات کے تئیں ارتقاءو افتخار کا مظہر ہوجاتیں ،ان کی کم گوئی کے ساتھ خوش کلامی ،بہت سوں پہ بھاری پڑ جاتی تھی ۔کتابوں سے ایساتعلق تھا ،جیسے سورج کو دن کی موجودگی سے ،اکثر علمی نشستوں میں ان کی نمائندگی ،منتظمین اجلاس کے لئے ضروری ہوجاتی ،کام سے مطلب ،منزل پہ نظر ، گفتگو میں مٹھاس ،نرم وتیز رفتار ، نہایت ملنسار ،بڑھاپے میں بھی برسرکار اور حوصلہ وتوانائی کے طرف دار جیسی خوبیوں کے مالک تھے پروفیسر ظفر صاحب مرحوم!انہوں نے دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلم حاصل کی تھی ، 2019اکتوبر میں وہ شعبہ اردو اےایم یو کے صدر شعبہ منتخب ہوئے تھے ،تقریبا 40/سال تک وہ درس وتدریس سے وابستہ رہے ،9/اگست 2020کو وہ صدر شعبہ اردو سے سبکدوش ہوئے تھے ۔
وہ عربی ،فارسی اور اردو ،تینوں زبانوں پر یکساں دست قدرت رکھتے تھے ، سینکڑوں مضامین ومقالات ان کے اشہب قلم سے دادوتحسین وصول چکے ہیں اور درجنوں سیمناروکانفرنس کی باوقارصدارت بھی وہ کر چکے ہیں ،بیسیوں سے زائد انہوں نے معیاری ،ادبی اور کلاسیکی تصنیفات بھی چھوڑی ہیں ،شبلی کے وہ گرویدہ تھے ،اس لئے علامہ شبلی سمیت بہت سے نایاب پہلوؤں کو مختلف جہتوں سے سامنے لانے کی کامیاب اور بے نظیر کوشش وہ کرتے رہے ،مثلا:شبلی شناسی کے اولین نقوش ،تحقیقی مقالات ،دیوان ناظم ،افکار وشخصیات ،شرح دیوان، اردو غالب ،شبلی معاصرین کی نظر میں ،شبلی کی سیرت نگاری ،انتخاب مومن ،نقش معنی وغیرہ ان کی اہم تصنیفات ہیں ۔
وہ ایک مثالی استاذ اور کلاسیکی ادب کے ماہر وفن کارنیز!علمی وادبی دنیا کا ایک معتبر حوالہ تھے ،ایسے لوگ اب نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں ،افسوس اس بات کا ہے کہ علم وادب کی جن بلندیوں پر وہ فائز تھے ،متنوع ادبی پاروں کے وہ خالق و فنکار تھے اور جن صفات وصلاحیت کے مالک تھے ،ادب نوازوں نے ان کو وہ حق نہیں دیا اور ان کی شخصیتوں کو وہ پہچان ،ان کی زندگی میں نہیں دی جاسکی جس کے وہ حقدار تھے ۔ادبی انجمنوں نے نہ جانے کیوں ان سے چشم پوشی کی اور ظفر صدیقی کی ادبی وتحقیقی کارناموں کو جانے انجانے میں نظر انداز کردیا گیا ۔