تاریخ کے دریچوں سے مذہبی مضامین

اقوام عالم کو پیغمابر کی موجودگی میں عذاب الٰہی نہیں ہوتا

تحریر: ریاض فردوسی

اوراللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک آپ ان میں ہوں اوراللہ تعالیٰ ان کو اس وقت بھی عذاب دینے والانہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں( الأنفال 33)

اس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہیں تھا جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ یہ اللہ کا باقاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے) یعنی اللہ تعالیٰ انہیں ایسا عذاب دینے والا نہیں تھا جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان موجود ہوتے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوتے ہوئے انہیں عذاب نہیں دیا جائے گا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے یعنی اہل مکہ کے درمیان سے نکل جائیں گے تو یہ لوگ عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمت ان سے سلب کرلی جائے گی اور سب کے سب اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے آپ نہیں دیکھتے کہ پہلی امتیں جب عذاب الٰہی کی زد میں آکر مٹ جانے کے مرحلے پر پہنچ جاتیں تو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ان کے درمیان سے نکل جانے کا حکم دے دیتا۔ حضرت لوط، حضرت صالح اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کی قوموں کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ قول باری وماکان اللہ معذبھم وھم یستغفرون) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کر گئے تو مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد وہاں رہ گئی۔

ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چناچہ آپ کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کردیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں۔ ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی ۔۔۔۔اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی۔ اس وقت کی صلح اس لئے ہے کہ اللہ جسے جا ہے اپنی رحمت میں لے لے۔ اگر مکہ میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقینا ان کافروں کو درد ناک مار مری جاتی۔ پس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی اہل مکہ کے لئے باعث امن رہی پھر حضور کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکہ سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکہ پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے۔اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ جس عذاب کا کفار نے سوال کیا وہ عذاب انہیں دے جب تک اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم ان میں تشریف فرما ہو، کیونکہ آپ رحمۃٌ لِلعالَمین بنا کر بھیجے گئے ہو اور سنتِ اِلٰہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا کہ جس سے سب کے سب ہلاک ہوجائیں اور کوئی نہ بچے۔( جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۵۰، مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۴۱۲، ملتقطاً)

مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو اِستغفار کیا کرتے تھے تو ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘ جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا ۔ نازل ہوئی۔ پھر جب وہ حضرات بھی مدینہ طیبہ کو روانہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے فتحِ مکہ کا اذن دیا اور یہ عذاب ِمَوعود آگیا جس کی نسبت اگلی آیت میں فرمایا ’’وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ‘‘۔ حضرت محمد بن اسحاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ‘‘ بھی کفار کا مقولہ ہے جو ان سے حکایۃً ذکرکیا گیا ،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن کی جہالت کا ذکر فرمایا کہ اس قدر احمق ہیں کہ آپ ہی تو یہ کہتے ہیں کہ یارب اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر نازل کر اور آپ ہی یہ کہتے ہیں کہ اے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)جب تک آپ ہیں عذاب نازل نہ ہوگا کیونکہ کوئی اُمت اپنے نبی کی موجودگی میں ہلاک نہیں کی جاتی۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۹۳)

اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

اَنْتَ فِیْهِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست

عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ:

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرما تے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۹۳)

یہ لوگ اپنے کفر اور شرک کی وجہ سے مستحق تواسی بات کے تھے کہ ان پر عذاب نازل کیا جائے، لیکن دو وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل نہیں فرمایا، ایک وجہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں اور آپ کے ہوتے ہوئے عذاب نازل نہیں ہوسکتا، کیونکہ نبی کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتا، جب نبی بستی سے نکل جاتے ہیں تب عذاب آتا ہے، اس کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ اللعلمین بناکر بھیجا گیا ہے اس لئے آپ کی برکت سے عذاب عام اس امت پر نہیں آئے گا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان استغفار کرتے رہتے ہیں ان کے استغفار کی برکت سے عذاب رکا ہوا ہے اور بعض مفسرین نے اس کی یہ تشریح بھی کی ہے کہ خود مشرکین مکہ بھی اپنے طواف کے دوران کثرت سے غفرانک کہتے رہتے تھے جو استغفار ہی کی ایک قسم ہے اگرچہ کفر وشرک کے ساتھ استغفار آخرت کے عذاب کو دور کرنے کے لئے توکافی نہیں تھا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کافروں کی نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اس لئے ان کے استغفار کا اثر یہ ہے کہ ان پر دنیا میں کوئی اس طرح کا عذاب عام نازل نہیں ہوا جیسا عاد وثمود وغیرہ پر آیا تھا۔

احادیث پاک میں استغفارکے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات ) اتاری ہیں ، ایک’’ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘ اور دوسری’’وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘ جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، ۵ / ۵۶، الحدیث: ۳۰۹۳)

(2)حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں ، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴ / ۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)

(3)حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

آخر میں!

یہ ان کے اس سوال کا جواب ہے جو ان کی اوپر والی ظاہری دعا میں متضمن تھا ۔ اس جواب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں کیوں عذاب نہیں بھیجا۔اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ جب تک نبی یا مصلح کسی بستی میں موجود ہو اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہو،اس وقت تک بستی کے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے اور عذاب بھیج کر قبل از وقت ان سے اصلاح پذیری کا موقع سلب نہیں کر لیاجاتا۔اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب تک بستی میں سے ایسے لوگ پے در پے نکلتے چلے آرہے ہوں جو اپنی سابقہ غفلت اور غلط روی پر متنبہ ہو کر اللہ سے معافی کی درخواست کرتے ہوں اور آئندہ کے لیے اپنے رویہ کی اصلاح کر لیتے ہوں،اس وقت تک کوئی معقول وجہ نہیں ہےکہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اس بستی کو تباہ کر کے رکھ دے ۔ البتہ عذاب کا اصلی وقت وہ ہوتا ہے جب نبی اس بستی پر حجّت پوری کرنے کے بعد مایوس ہو کر وہاں سے نکل جائے یا نکال دی جائے یا قتل کر ڈالا جائے ، اور وہ بستی اپنے طرز عمل سے ثابت کر دے کہ وہ کسی صالح عنصر کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com