مذہبی مضامین

دین میں سختی نہیں ہے

تحریر: ابو حنظلہ سہیل درودوالا

یہ جملہ اکثر اس وقت سننے کوملتا ہے جب کسی مسلمان کو دین سے متعلق کوئی نصیحت کی جائے

مغربی تهذیب سےمتاثره تعلیم یافته خواتین وحضرات کے لئے تو یه جمله ایسا رهنما اصول ھے جس کو اپنا کر مسلمان ھونے کےباوجود وه تمام شرعی حیودوقیودسے خود کو بالکل آزاد سمجھتےھیں

مانا دین میں کوئی جبراورسختی نهیں ھے
لیکن ان سے مودبانه سوال ھے
اور وه بھی ان کےسب سےپسندیده اور ان کے نزدیک سب سے زیاده تهذیب یافته ملک امریکه سے متعلق

امریکن آرمی کو ایک امریکی نوجوان بطورکمیشنڈ آفیسر جوائن کرتاھے، طے شده مروجه تربیت حاصل کرتا ھے، پاسنگ آؤٹ پریڈھوتی ھے، وه اپنے ملک سےوفاداری کا حلف اٹھاتاھے، بطورکمیشنڈافسر اس کے کندھوں پر متعلقه رینک کے ستارے یا بیجز سجھادیئےجاتے ھیں، امریکن آرمی کا مخصوص نشان بھی اس کے سینےپر آویزاں کر دیا جاتاھے، ملک کے دفاع کی بھاری ذمه داریاں دے کر اس کی کسی چھاؤنی میں پوسٹنگ کردی جاتی ھے
لیکن
یه نوجوان وھاں جانے کےبعد شیو کرنا چھوڑدیتاھے
کچھ ھی ھفتوں میں اس کےچهرےپر یه لمبی چوڑی داڑھی اگ آتی ھے
اچانک ایک دن یه اپنی امریکن آرمی کی یونیفارم کو پھینک کر طالبان کے وضع قطع کے کپڑے پهن لیتا ھے، اسامه بن لادن جیسی پگڑی باندھ کر گلے میں راؤنڈز کے بیلٹس لٹکا کرھاتھ میں کلاشنکوف تھام کر چھاؤنی میں مٹرگشت شروع کردیتا ھے

کسی کونقصان پهنچاتاھے نه کسی سے کوئی بات کرتاھے

سوچیں

کیا ھوگا
آنافانا بات نه صرف پوری چھاؤنی میں پھیل جائے بلکه پوری امریکی فوج ھل کر ره جائے گی، میڈیا چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالے گا
فوجی دستوں کی نقل وحرکت شروع ھوجائےگی، پوزیشنیں لی جائیں گی، حفاظتی اقدام کئے جائیں گے، دفاعی تنصیبات کے بچاؤ کی منصوبه بندی شروع ھوجائے گی، فضا هیلی کاپٹروں کی گن گرج سے گونج اٹھے گی، ویری ویری ھائی الرٹ جاری ھوجائےگا،
اعلی فوجی قیادت سر جوڑکر بیٹھ جائےگی، صدارتی محل اور امریکن سی آئی کے ھیڈکوارٹر سمیت اھم مقامات کی سیکورٹی بڑھا دی جائی گی، اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آجائےگا، ٹیلی فون اور موبائل فونز کی گھنٹیاں دھڑا دھڑا بجنے لگیں گی، انٹرنیٹ پر لمحے لمحے کی معلومات کا تبادله شروع ھوبجائےگا، پوری دنیا کے میڈیا پرچیختی چھنگاڑتی بریکنگ نیوز چلنا شروع ھوجائیں گی
حالانکه
معمولی سی بات تھی، ایک امریکی افسر نے صرف طالبان کی وضع وقطع اختیارکی، کسی کو نقصان نهیں پهنچایا، کسی پر کلاشنکوف تک نهیں تانی، پھر اتنی ھاھاکار کیوں مچ گئی،

آپ کے خیال میں اس نوجوان امریکی افسر کو حراست میں لینے کے بعد کیا سلوک کیا جائے گا،
جی ھاں
اس کو انتهائی سخت سیکورٹی میں قید کیا جائےگا، اس کے خلاف تحقیقاتی کمیشن بنے گا، فوجی عدالت میں مقدمه چلے گا اور ھوسکتا ھے اس کا کورٹ مارشل ھو اور سزا کی تکمیل کے بعد برطرف کردیاجائے،

سوال یه ھے که آخر اس کے خلاف اتنے سخت ایکشن کی ضرورت کیوں پیش آئی،
اس لئے که اس نے اپنے حلف سے غداری کی، فوج اور ملک کے لئے اس کی وفاداری مشکوک ھوگئی، اس نے حاضر سروس ھوتےھوتےھوئے ملک کے بدترین دشمنوں کی صورت اختیار کی،
ایسا شخص ھرگز قابل معافی نهیں ھے
یه فوج کا معامله تھا، اس کا نظم وضبط سخت ھوتاھے، معمولی کوتاھی بھی نظرانداز نهیں کی جاتی ھے،

چلیں کسی پرائیوٹ ادارے کی مثال لے لیتے ھیں
تصور کریں
پی آئی اے کا ملازم ادارے کی یونیفارم پهنے ریلوے کے دفترمیں جاکھڑا ھو اور کام کرنے کی کوشش کرے،
ایک بینک کا کیشئیر کسی اور بینک کے کیش کاؤنٹر پر جا بیٹھے اور رقوم کا لین دین کرنےلگےیا اسکول کا کوئی طالب علم اپنے تعلیمی ادارےکے بجائے کسی دوسرے اسکول میں کلاسیں لینے لگےتوکیا یه درست عمل ھوگا

کیا ان کے اپنے ادارے ان کی ان حماقتوں کو برداشت کریں گے۔

ھرگزنهیں۔۔۔۔
کیونکه چھوٹے سے چھوٹے ادارے میں باقاعده قواعدوضوابط موجودھوتےھیں
ملازمین کوسختی سے ان کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔
خلاف ورزی پر اداره جاتی کارووائی کاسامناکرناپڑتاھے۔
اسی طرح دنیاکا ھرنظام انسانوں کواپنا پابندبناتا ھے۔

اب اس سارے معاملے کو اسلام کے تناظر میں دیکھتے ھیں۔

اسلام کی ھدایات عالم انسانیت کےلئے ھیں۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو الله تعالی کے احکامات کی پیروی اور رسول الله صلی الله علیه واله وسلم کی اطاعت سیکھاتا ھے
فرمان برداروں کو دنیا وآخرت میں انعامات کی نوید سناتاھے اور نافرمانوں کےلئے دنیاوآخرت میں ھولناک عذاب کی وعید۔

جوانسان کلمه طیبه پڑھ کر الله تعالی کو اپنا خالق و مالک مان لیتاھے
گویا الله تعالی کی تابعداری کا حلف اٹھالیتاھے

وه یه تسلیم کرتاھے که وه عبد یعنی غلام ھے، اب اس کی مرضی ختم ھوگئی وه عهدکرتاھےکه ھمیشه اپنے مالک کےتابع رھے گا۔۔۔

اس کے بعد وه شخص خود کومادرپدرآزاد سمجھے،
جوچاھے گل چھرے اڑاتاپھرے، اسلام کے احکامات کو روندھنے لگے، فحاشی، عریانی، بےحیائی اور بے پردگی کاپرچارکرے، اسلام کی دشمن تهذیب کو اپنامقصد زندگی بنالے
اس کا اوڑھنا، بچھونا اورطرزمعاشرت اسلامی اصولوں کو چیلنج کرے۔
کیا اس کی گرفت نهیں ھوگی؟
لازمی ھوگی،
جب کوئی ادنی ترین اداره اپنے ملازمین کو معمولی غفلت اورکوتاھی کی اجازت نهیں دیتا تو
احاکم الحاکمین، پروردگار عالم کیسے اپنے بندوں کی گرفت نهیں فرمائےگا،
علماءکرام ایسےشخص کے خلاف فتوی جاری کریں گے، اسلامی حکومت ھوگی تو شرعیت کی مخالفت کرنےوالوں کوکڑی سزائیں بھی دی جائیں گی

اسلام میں بالکل سختی نهیں ھے
لیکن
ان کے لئے جو کافرومشرک اورغیرمسلم ھیں
اس لئے کے ان پر اسلامی احکامات کااطلاق ھی نهیں ھوتا
اس لئے وه مکمل آزاد ھیں
لیکن مسلمان اپنے رب کی اطاعت کا ھرصورت ھرصورت پابند ھے
وه ھرگز ھرگزیه ھرزه سرائی کا اختیارنهیں رکھتاکه
کہتاپھرے کہ اسلام میں سختی نهیں ھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے