تحریر : محمد دانش رضا منظری پیلی بھیت، یوپی
استاذ: جامعہ احسن البرکات للولی،فتحپور ، یوپی
رابطہ نمبر :9410610814
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے بلند مرتبے کا کیا کہنا ، نسبت رسول کی دولت سے سرفراز تھے، زہد و تقویٰ کے پیکر تھے مگر اپنے عمل پر غرور سے کوسوں دور تھے ۔ آپ سے ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی نے خدمت میں آکر عرض کیا اے رسول خدا کے نواسے مجھے کچھ نصیحت کیجئے کہ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے جب کہ یہ خود بہت بڑے متقی اور زاہد تھے۔حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، اے داؤد طائی آپ خود اپنے زمانے کے بہت بڑے عابد اور زاہد ہیں۔ آپ کو میری نصیحت کی کیا حاجت ؟ اس پر حضرت داؤد طائی نے عرض کیا اے خلاصہ اولاد مصطفیٰ آپ کی بزرگی تمام عالم پر مسلم ہے آپ کو چاہیے کہ سب کو نصیحت کریں۔ آپ نے فرمایا اےداؤد طائی میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں بروز حشر نانا جان یہ نہ پوچھ لیں،کہ اے جعفر تونے میری اتباع اور پیروی کا حق ادا نہ کیا تو میں اس وقت کیا جواب دوں کیوں کہ کام نسب کی شرافت پر منحصر نہیں، بلکہ بارگاہ خداوندی میں تو عمل کا اعتبار ہے ۔ یہ سن کر حضرت داؤد طائی زار زار رونے لگے اور عرض کرنے لگے اے خدا جس کی طینت کا خمیر نور رسالت اور اسرار رسالت سے ہے ان کا جب یہ عالم ہے تو اے داؤد طائی تو کس شمار و قطار میں ہے جو اپنے آپ کو اچھا سمجھے (تذکرة الاولیاء)
آج جس کا ہاتھ زہد و تقویٰ سے خالی ہے اور وہ اپنے نسب پر فخر کر رہے ہیں ذرا وہ حضرت امام جعفر صادق وحضرت داؤد طائی رضی اللہ عنھما کے عجز و انکساری پر غور کریں اور سبق لیں۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ ایک دن اپنے غلاموں کے ساتھ تشریف فرما تھے آپ نے اپنے غلاموں سے فرمایا آؤ ہم سب مل کر عہد و پیمان کریں کہ ہم میں جو بخشا جائے وہ روز قیامت دوسرے کی شفاعت کرے۔ تمام غلام عرض کرنے لگے اے نواسہ رسول آپ کو ہماری شفاعت کی۔کیا ضرورت، آپ کے جد کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تو خود ساری مخلوق کی شفاعت فرمائیں گے ۔ آپ نے فرمایا میں رب تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور اپنے اعمال کی وجہ سے شرم سار ہوں کہ کیسے اپنے جد کریم کے روبرو کھڑا ہو سکوں گا ۔( کشف المحجوب ،ص 128)
حضرت عبداللہ ابن مبارک رضى الله عنہ فرماتے تھے چار باتیں چار ہزار حدیثوں سے منتخب ہوئی ہیں-
(1) کسی عورت پر ہرگز اعتبار نہ کر یعنی یہ نہ سمجھ کہ کسی عورت سے قریب ہوکر تو شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا اور نفس پر قابو پا لے گا-
(2) مال پر ہرگز فریفتہ نہ ہو یعنی کہ مال کی محبت ہی ساری برائیوں کی جڑ ہے-
(3) اپنے معدے پر اس کی طاقت سے زیادہ نہ بوجھ ڈال یعنی کہ خرابئ معدہ کا سبب ہے جو ساری بیماریوں کی جڑ ہے-
(4) صرف وہی علم سیکھ جو تجھےنفع دے- (الطبقات مترجم 127 )
مشہور تابعی محدث و فقیہ اور زاہد و متقی حضرت سفیان ثوری کوفی علیہ الرحمہ (متوفی 161ھ) نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ سے وصیت کی درخواست کی تو امام جعفر صادق نے فرمایا اہ سفیان دروغ گو آدمی میں مروت نہيں ہوتی ۔ حاسد کو راحت نہيں ملتی (وہ حسد کی آگ میں جلتا ہی رہتا ہے) بد خلق آدمی کو بزرگی نصیب نہیں ہوتی ۔ بادشاہوں میں اخوت نہیں ہوتی۔ حضرت سفیان نے عرض کیا کچھ اور ارشاد ہوں، تو آپ نے فرمایا اے سفیان خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچ تاکہ عابد بن سکے۔خدا کی رضا پر راضى رہے تاکہ پختہ مسلمان بن سکے ۔ بدکار آدمی کی صحبت اختیار مت کر، ورنہ بدکاری تم پر بھی غالب آجائے گی ۔ اپنے کاموں میں ان لوگوں سے مشورہ کر جو اللہ تعالی کی اچھی طرح عبادت کرتے ہیں ۔ حضرت سفیان نے پھر عرض کیا کچھ اور ارشاد ہو۔ آپ نے فرمایا اے سفیان جو شخص خاندان اور قبیلہ کے وسیلے کے بغير عزت کا طالب ہو اور بغير دبدبہ جمائے رعب کا طالب ہوں یعنی اس کا رعب حقیقی ہو مصنوعی نہ ہو تو وہ نافرمانی اور گناہوں کی لذتوں سے نکل کر اطاعت و فرماں برداری کی عزتوں کی طرف آرہا ہے۔ حضرت سفیان نے پھرعرض کیا حضور کچھ اور ارشاد فرمائے امام جعفر نے فرمایا اے سفیان جو شخص برے ساتھی کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ سلامت نہیں رہتا۔ اور جو شخص برے راستے پر چلتا ہے وہ بدنام ہوجاتا ہے اور جو شخص اپنی زبان کی حفاظت نہيں کرتا وہ پیشمانی اٹھاتا ہے۔ایک شخص نے حضرت حسن بصری سے عرض کیا تعحب ہے کہ عبادت میں لطف نہیں پاتا- آپ نے جواب دیا شاید تو نے کس ایسے شخص کو دیکھ لیا ہے جو اللہ سے نہیں ڈرتا- حق بندگی یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جائے-
کسی شخص نے حضرت ابی یزید رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ میں عبادت میں کیف و سرور نہیں پاتا- آپ نے جواب دیا یہ اس لیے ہے
کہ تو عبادت کی بندگی کرتا ہے اللہ کی بندگی نہیں کرتا تو اللہ کی بندگی کر پھر دیکھ عبادت میں کیسا مزہ آتا ہے-(مکاشفہ القلوب: ص 57)
حضرت عبدالعزیز بن ابو عثمان علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ نے فرمایا: چاہئے کہ ضروریات زندگی کے لئے درمیانی راہ اختیار کرو اور شرکش لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے بچو کھانے, پینے , لباس اور سواری میں سے وہ چیزیں اختیار کرو جو گھٹیا نہ ہوں نیز متقی امانت دار اور خوف خدا رکھنے والوں سے مشورہ لیا کرو-(حلیۃ اولیاء وطبقات الاصفیاء مترجم: ج 7. ص 19)
ایک شخص حضرت ابراھیم بن ادہم کے پاس آیا آور عرض کیا اے ابو اسحاق میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتا ہوں ، مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہ اصلاح ہوں ۔ حضرت ابراھیم بن ادہم نے فرمایا پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پر قادر ہوجاؤ تو یقین ہے کہ گناہ تمہیں کبھی نقصان نہیں پہونچا سکتا ۔
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیھما السلام نے ایک ساتھ جب سفر کیا تھا جس کا ذکر سولویں پارے میں ہے۔ اس سفر میں حضرت خضر علیہ السلام دو یتیم بچوں کی گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کیا تھا اور اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا تو اپنے فرمایا تھا اس کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزانہ دفن ہے ، اس خزانے کے بارے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ خزانہ ایک سونے کی تختی پر مشتمل تھا اور اس پر سات عبرت آموز عبارتیں منقوش تھیں ۔
(1) اس شخص کا حال عجیب ہے جو موت کا یقین ہونے کے باوجود ہنستا ہے ۔
(2) اس شخص پر تعجّب ہے جو دنیا کو فنا ہونے والی تسلیم کرنے کے باوجود اس میں مطمئن و منہمک ہے ۔
(3) اس شخص پر حیرت ہے جو تقدیر پر ایمان رکھنے کے باجود دنیا (کی نعمتیں ) نہ ملنے پر مغموم ہوتا ہے ۔
(4)کتنا عجیب ہے وہ آدمی جس کو یقین ہے کہ حشر میں ذرے ذرے کا حساب دینا ہے
اس کے باوجود دنیا کی دولت جمع کرنے کی دھن میں مگن ہے۔
(5) حیرت ہے اس شخص پر جو جہنم کو سخت ترین عذاب کا مقام تسلیم کرنے کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آتا
(6) عجیب ہے وہ شخص کہ جو اللہ کو پہچاننے کے باوجود غیروں کے تذکرے کرتا ہے
(7) تعجب ہے اس پر جو یہ جانتا ہے کہ جنت میں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں پھر بھی دنیا کی راحتوں میں گم ہے ۔ اسی طرح اس کا حال بھی عجیب ہے جو شیطان کو جان و ایمان کا دشمن جانتے ہوئے بھی اس کی پیروی کرتا ہے ۔ (پر اسرار خزانہ، ص 5 تا 6 ۔ بحوالہ المنبھات علی الاستعداد ، ص 83 ملخصا)
ذکر کردہ اقوال پر غور و تفکر کریں اور اپنی زندگیوں میں انکو شامل کرلیں. اس لیے کہ ان اقوال میں وہ درس و عبرت کی باتیں ہیں جو عاصی و نافرمان کو الله تک پہنچانے کے لیے کافی و وافی ہیں لہذا ان پر غور فکر کریں اور ان حکمت بھری باتوں کو عمل میں لائیں۔