عقائد و نظریات مذہبی مضامین

معبودان کفار اور شرعی احکام (قسط چہارم)

تحریر : طارق انور مصباحی

قسط سوم میں بحث ششم ہے۔اس میں کفار کے مذہبی شعار اور قومی شعار کی بحث ہے۔ قسط چہارم میں بحث ہفتم وبحث ہشم ہے۔بحث ہفتم میں کفار کی عبادات و معبودان باطل کی تعظیم وتکریم کا حکم بیان کیا گیا ہے۔بحث ہشتم میں علامت کفرکا بیان ہے۔

بحث ہفتم:

عبادت کفار اور معبودان باطل کی تعظیم وتوقیر

شعار کا اطلاق کفار کی مذہبی عبادتوں پر بھی ہوتا ہے،بلکہ وہ امور جو ایمان کے منافی ہیں،ان کو بھی شعارکفارکہہ دیاجاتا ہے۔تصدیق کے منافی امورعلامت کفر یا فی نفسہ کفر ہوتے ہیں۔معبودان باطل کی عبادتیں صریح کفر ہیں،کیوں کہ غیر اللہ کی عبادت کفر ہے۔

عبادت کفار اور علامت کفر پر شعارکفار کے احکام نافذ نہیں ہوتے،گرچہ ان دونوں کو بھی شعار کفارکہہ دیا جاتا ہے۔شعار کفار کو شرعی ضرورت وحاجت کے سبب اختیار کرنا جائز ہے،لیکن عبادت کفار اورعلامت کفر کوشرعی ضرورت وحاجت کے سبب بھی اختیار کرنا جائز نہیں۔ جبر واکراہ کی صورت میں عبادت کفار وعلامت کفر کو اختیار کرنے کی رخصت ہے۔

غیر اللہ کی عبادت کفر صریح ہے۔اسی طرح کفارومشرکین اپنے معبودان باطل کی تعظیم وتوقیر کے لیے جن امور کو انجام دیتے ہیں، وہ بھی صریح کفر ہیں،کیوں کہ وہ معبودان باطل کو اپنا معبود سمجھ کر ان کی تعظیم وتکریم کرتے ہیں۔ غیر اللہ کومعبود سمجھنا بھی کفرہے،اور اس کو معبود سمجھ کر تعظیم وتوقیر کرنا بھی کفر ہے،مثلاً کفار ومشرکین کا اپنے معبودان باطل کے سامنے ہاتھ جوڑنا ان معبودان باطل کی تعظیم وتوقیرہے،اوریہ کفر ہے،کیوں کہ کفار ان کو اپنا معبود سمجھ کر یہ تعظیمی فعل انجام دیتے ہیں۔ کفار کے کفریہ اعمال میں مشابہت کفر ہے۔

معبودان باطل کی وہ تعظیم وتوقیر جوکفار انجام نہیں دیتے۔اسے انجام دینا بھی کفر ہے، کیوں کہ یہ علامت کفر ہے،جیسے قرآن مجید کوآلودگیوں میں ڈالنا علامت کفر ہے۔

کفار کے غیرمومن معبودان کفار کی تعظیم وتکریم کا حکم شریعت میں وارد نہیں۔جن مومنین صالحین کو کفار نے معبود بنالیا ہے، ان صالحین پر غیر مومن معبودان کفارکو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن مجیدمیں مومنین کی تعظیم کا حکم ہے اورمعبودان کفار سے پرہیز کا حکم ہے۔

ارشاد الٰہی ہے:(فاجتنبوا الرجس من الاوثان)(سورہ حج:آیت 30)

کفار کی مذہبی عبادات اور معبوان کفار کی تعظیم کا حکم

کفار کی مذہبی عبادتوں اور غیرمومن معبوان کفار کی تعظیم وتوقیر کا دوحکم ہے۔

(1)اگر اکراہ شرعی کے سبب غیراللہ کی عبادت کیا، یابتوں کی تعظیم کیاتو حکم کفر نہیں۔

(2)اگر اکراہ شرعی کے بغیر غیراللہ کی عبادت کیا، یابتوں کی تعظیم کیاتو حکم کفر ہے۔

(الف)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر کوسجدہ تعظیمی کفر

امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”مسلمان کودسہرے کی شرکت حرام ہے، بلکہ فقہا نے اسے کفر کہا اور اس میں بہ نیت موافقت ہنود ناقوس بجانا بے شک کفر ہے، اور معبودان کفار پر پھول چڑھانا کہ ان کا طریقہ عبادت ہے،اشد واخبث کفر۔

اشباہ والنظائر وغیرہا معتمدات اسفار میں ہے:عبادۃ الصنم کفر ولا اعتبار بما فی قلبہ وکذا لو صور عیسی علیہ الصلٰوۃ یسجد لہ-وکذا اتخاذ الصنم لذلک وکذا لو تزنر بزنار الیہود والنصاری دخل کنیستہم او لم ید خل“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص149-رضا اکیڈمی ممبئ)

ترجمہ:بت کی عبادت کفر ہے۔ دل میں جوکچھ ہے،اس کا اعتبارنہیں۔ایساہی حکم اس کاہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تصویر بناکر اسے سجدہ کیا۔اسی طرح سجدہ کے لیے بت بنانے کا حکم ہے۔اسی طرح اگرکسی نے یہود ونصاریٰ کا زنار باندھا،خواہ ان کے گرجا میں داخل ہو یا نہ ہو۔
معبودان کفار پر پھول چڑھانا کفار کا طریقہ عبادت ہے،اورغیر اللہ کی عبادت کفر ہے،اس لیے بتوں پرپھول چڑھاناکفریہ فعل میں کفار کی مشابہت ہے۔خواہ عبادت کی نیت کرے،یا نہ کرے۔ خواہ معبود کفار کی حیثیت سے بت پر پھول چڑھائے،یا محض ایک پتھر ہونے کی حیثیت سے اس پرپھول چڑھائے۔ ہر صورت میں حکم کفر ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول اور اولو العز م انبیائے کرام میں سے ہیں۔نصاریٰ نے انہیں معبود بنالیا ہے۔وہ عبادت کے طورپر ان کی تصویر کو سجدہ کرتے ہیں،خواہ وہ تصویر کاغذی ہو، یا مجسماتی۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تصویر کو سجدہ کرنے میں نصاریٰ کے کفریہ فعل کی مشابہت ہے،لہٰذا یہ کفر ہے۔دیگرغیر معبود مخلوقات کی تصویر کو سجدہ اسی وقت کفر ہوگا، جب عبادت کی نیت ہو۔

(ب)بتوں پر پھول چڑھانا عبادت کفار

امام احمدرضا قادری نے تحریر فرمایا:”جو مرتکب حرام ہے،مستحق عذاب جہنم ہے، اور جو مرتکب کفر فقہی ہے،جیسے دسہرے کی شرکت یاکافروں کی جے بولنا،اس پر تجدید اسلام لازم ہے،اور اوراپنی عورت سے تجدید نکاح کرے، اور جوقطعاً کافر ہوگیا،جیسے دسہرے میں بطور مذکور ہنود کے ساتھ ناقوس بجانے یامعبودان کفار پر پھول چڑھانے والا کافر مرتد ہوگیا، اس کی عورت نکاح سے نکل گئی۔اگر تائب ہو،اور اسلام لائے، جب بھی عورت کواختیار ہے۔ بعد عدت جس سے چاہے،نکاح کرلے،اوربے توبہ مرجائے تو اسے مسلمانوں کی طرح غسل وکفن دینا حرام،اس کے جنازے کی شرکت حرام،اسے مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام،اس پر نماز پڑھنا حرام،الیٰ غیر ذلک من الاحکام:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص149-150-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح: بتوں پر پھول چڑھانا اور ہنودکی طرح ناقوس بجانا بھی کفر ہے۔کفار ان امور کو اپنے معبودان باطل کی عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ ان امور کو انجام دینا کفار کے کفریہ فعل سے مشابہت ہے۔کفریہ فعل میں کفار کی مشابہت کفر ہے۔

علامت کفر اور کفارکے مذہبی شعار میں نسبت

علامت کفر اور کفارکے مذہبی شعار میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے۔کفارکا ہر مذہبی شعار علامت کفر ہے،لیکن ہر علامت کفر کفارکا مذہبی شعار نہیں،مثلاً قرآن مقدس کی بے حرمتی کبھی یہود کرتے ہیں،کبھی نصاریٰ،کبھی ہنود،لیکن یہ کسی کافرقوم کامذہبی شعار نہیں کہ اس کے ذریعہ اس کافر قوم کو دیگر کفار ومشرکین سے امتیازوتشخص حاصل ہوتا ہو۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کوئی بھی کافر قوم اپنا رسول ونبی نہیں مانتی ہے، یہ صریح کفر ضرور ہے،لیکن یہ ایسا امر نہیں کہ اس کے ذریعہ کسی کافر قوم کو دیگر کفارومشرکین سے امتیاز وتشخص حاصل ہوتا ہو،پس یہ کسی کافر قوم کامذہبی شعار نہیں۔

بحث ہشتم:

علامت کفر(تصدیق کے منافی امور)

جس طرح کفار کی عبادتوں اور ان کے دیگر کفریہ اعمال کو شعار کفر کہا جاتا ہے، اسی طرح جو امور ایمان یعنی تصدیق ماجاء بہ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے منافی ہوں، ان پر بھی شعار کفر کا اطلاق ہوتا ہے، لیکن ان امور پر شعار کفر کے احکام نافذنہیں ہوتے۔

علامت کفر یعنی تصدیق کے منافی امورکا حکم

علامت کفر یعنی تصدیق کے منافی امورکا دوحکم ہے۔

(1)اگر اکراہ شرعی کے سبب علامت کفر کواختیار کیا تو حکم کفر نہیں۔

(2)اگر اکراہ شرعی کے بغیر علامت کفر کواختیار کیاتو حکم کفر ہے۔

علامت کفر یعنی تصدیق کے منافی امور وہ ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ایسا آدمی مومن نہیں۔ مسلمان ایسے امور انجام نہیں دیتے۔ ”مومن بہ“کی تصدیق وتعظیم کے برخلاف جو امور ہوں،وہ علامت کفر میں شمار ہوتے ہیں۔علامت کفر کواختیار کرناکفر ہے۔

(۱)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے تحریر فرمایا:”مسایرہ امام محقق ابن الہمام طبع مصر خاتمہ ص ۹:وبالجملۃ فقد ضم الی التصدیق بالقلب فی تحقق الایمان امور،الاخلال بہا اخلال بالایمان اتفاقًا کترک السجود للصنم وقتل نبی والاستخفاف بہ ومخالفۃ ما اجمع علیہ وانکارہ بعد العلم بہ“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد ششم:ص35-رضا اکیڈمی ممبئ)

ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے، لیکن بعض امور ایسے ہیں جو تصدیق قلبی میں خلل کا سبب بنتے ہیں،اور عدم تصدیق کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے بتوں کوسجدہ کرنا، نبی کو قتل کرنا اور نبی کی بے ادبی کرنا،قرآن مجید کوآلودگی کی جگہ ڈالنا،پس ایسے امو ر کا صدور عدم تصدیق کی علامت ہے،اس لیے ایسے امورکے مرتکب پر حکم کفرعائد ہوگا۔

الحاصل جو امورعدم تصدیق یعنی تکذیب کی علامت ہیں،وہ تکذیب کے قائم مقام قرار دئیے جاتے ہیں،اور ملزم پر حکم کفر عائد ہوتا ہے،خواہ مرتکب کی نیت کچھ بھی ہو۔

علامت کفر اور مذہبی شعار کے حکم میں فرق

کفار کے قومی شعاراور مذہبی شعار کے احکام قسط سوم میں مرقوم ہیں۔

ایک صورت میں قومی شعار اور مذہبی شعار کے حکم میں فرق ہے۔کفار کے قومی شعار کو دنیاوی نفع یا ہزل واستہزاکے طورپر اختیار کیا تو حرام ہے،کفر نہیں۔

کفارکے مذہبی شعار کو دنیاوی نفع یا ہزل واستہزاکے طورپر اختیار کیا تو یہ کفر ہے۔

الحاصل کفار کے قومی شعار اور مذہبی شعار کے حکم میں بھی کچھ فرق ہے۔

شرعی ضرورت وحاجت کے سبب کفار کے مذہبی شعار اور قومی شعار کو اختیار کرنا جائز ہے۔ کفار کے قومی شعار ومذہبی شعار کے علاوہ دیگر کفریہ اقوال وافعال کو شرعی ضرورت وحاجت کے سبب اختیار کرنا جائز نہیں۔صرف جبر واکراہ کی صورت مستثنی ہے۔

سوال:معبودان کفار کی تعظیم علامت کفر ہے، پس جس طرح شعار کفر کوشرعی ضرورت وحاجت کے سبب اختیار کرنا جائز ہے،اسی طرح علامت کفر مثلاً تعظیم اصنام وغیرہ کو بھی بوجہ ضرورت اختیار کر نا کیوں جائز نہیں؟دونوں میں وجہ فرق کیا ہے؟

جواب:بہت سے امور علامت کفر ہیں،گرچہ ان کو شعارکفربھی کہا جاتا ہے،جیسے قرآن شریف کو آلودگیوں میں ڈالنا علامت کفر ہے۔ شعار کفاردراصل وہ امور ہیں جن کے ذریعہ ان کافرقوموں کودیگر قوموں سے امتیازوتشخص حاصل ہوتا ہے۔

اصنام واوثان کی تعظیم علامت کفر ضرور ہے،لیکن کفارومشرکین اپنے معبودان باطل کی تعظیم وعبادت کو دیگر قوموں سے امتیاز وتشخص کے واسطے نہیں اپناتے،بلکہ اپنے معبودان باطل کی تعظیم وعبادت کواپنا مذہبی فریضہ سمجھ کراپناتے ہیں۔اس کا شمار شعار کفار میں نہیں ہوتا، گر چہ ایسے امور پر بھی شعار کفار کا اطلاق ہوتا ہے۔

بوجہ ضرورت شعار کفار کو اختیار کرنے کی اجازت ہے،تا کہ مومنین کو وہ اپنی قوم کے افراد سمجھیں اور اس طرح اسلام ومسلمین کی کسی ضرورت کی تکمیل ہو سکے۔
اگر کوئی مسلمان اپنے اسلامی تشخص یعنی اسلامی وضع اورلباس کے ساتھ کسی کافرقوم کے معبودان باطل کی تعظیم کرے تونہ کفار اس شخص کو اپنا آدمی سمجھیں گے،نہ ہی اس سے ضرورت مطلوبہ کی تکمیل ہوسکے گی،پس بوجہ ضرورت شعار کفار کو اختیار کرنے کی اجازت ہے،تاکہ کفار مشرکین اس مسلمان کو اپنا آدمی سمجھیں اور مسلمانوں کی ضرورت کی تکمیل ہو سکے۔
بوجہ ضرورت صرف شعار کفارکو اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ زبان سے خود کو یہودی، عیسائی وغیرہ کہنے کی اجات نہیں۔مندرجہ ذیل عبارت کو بغورپڑھیں، تاکہ شعار کفار کو اختیار کرنے کی ضرورت واضح ہو سکے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”کسی غرض مقبول کی ضرورت سے اسے اختیار کرے۔ وہاں اس وضع کی شناعت اور اس غرض کی ضرورت کا موازنہ ہوگا۔اگر ضرورت غالب ہوتو بقدر ضرورت کا وقت ضرورت یہ تشبہ کفر کیا معنی، ممنوع بھی نہ ہوگا۔

جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی کہ بعض فتوحات میں مقتول رومیوں کے لباس پہن کربھیس بدل کر کام فرمایااور اس ذریعہ سے کفار اشرار کی بھاری جماعتوں پر باذن اللہ غلبہ پایا۔اسی طرح سلطان مرحوم صلاح الدین یوسف اناراللہ تعالیٰ برہانہ کے زمانے میں، جب کہ تمام کفار یورپ نے سخت شورش مچائی تھی، دوعالموں نے پادریوں کی وضع بناکر دورہ کیا اور اس آتش تعصب کوبجھادیا۔

خلاصہ میں ہے:(لوشد الزنار علی وسطہ ودخل دارالحرب لتخلیص الاساری لایکفر ولودخل لاجل التجارۃ یکفر ذکرہ القاضی الامام ابو جعفر الاستروشنی)

(اگر کوئی شخص اپنی کمر میں زُنّار باندھے،او رقیدیوں کو چھڑانے کے لیے دارحرب میں داخل ہوتو کافر نہیں ہوگا،او راگر اس مدت میں تجارت کے لیے جائے توکافرہوجائے گا۔ امام ابو جعفر استروشنی نے اس کو ذکرکیاہے۔ت)

ملتقط میں ہے:(اذا شد الزنار او اخذ الغل اولبس قلنسوۃ المجوس جادا او ھازلا یکفر-الا اذا فعل خدیعۃ فی الحرب)

(جب کسی شخص نے زُنّار باندھا یاطوق لیا یا آتش پرستوں کی ٹوپی پہنی خواہ سنجیدگی کے ساتھ یاہنسی مذاق کے طور پر تو کافر ہوگیا،مگرجنگ میں (دشمن کومغالطے میں ڈالنے کے لیے) بطورتدبیر ایساکرے توکافرنہ ہوگا۔ت)

منح الروض میں ہے:(ان اشد المسلم الزنار ودخل دارالحرب للتجارۃ کفر ای لانہ تلبس بلباس کفر من غیر ضرورۃ شدیدۃ-ولا فائدہ مترتبۃ بخلاف من لبسھا لتخلیص الاساری علٰی ما تقدم)

(اگرمسلمان زنّار باندھ کر دارالکفرمیں کاروبار کے لیے جائے توکافر ہوجائے گا، اس لیے کہ اس نے بغیر کسی شدید مجبوری کے اور بغیر کسی ترتب فائدہ کے لباس کفرپہنا(جو اس کے لیے روانہ تھا)بخلاف اس شخص کے جس نے قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے لباس کفر(برائے حیلہ)استعمال کیا،جیسا کہ پہلے ذکرہوا:ت)
(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جزا ول:ص91-رضااکیڈمی ممبئ)

علامت کفرکی تشریح

معبودان کفار کی تعظیم وتوقیرایمان کے منافی ہے۔ایسے امور علامت کفر میں شمار ہوتے ہیں۔غیرمومن معبودان کفار کی تعظیم وتوقیر صرف کفار ہی کرتے ہیں۔ مومنین کو ان سے پرہیز کا حکم دیا گیا:(فاجتنبوا الرجس من الاوثان)(سورہ حج:آیت 30)

جو اعمال کفارکے ساتھ خاص ہوں،اور وہ تصدیق کے منافی ہوں،ان امور کوانجام دینا کفر ہے، کیوں کہ ایسے امور علامت کفر ہیں۔

(1)قاضی عیاض مالکی قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:(وکذلک نُکَفِّرُ بکل فعل اَجمَعَ المُسلِمُونَ اَنَّہ لَا یَصدُرُ اِلَّا من کافرٍ-وَاِن کَانَ صَاحِبُہ مُصَرِّحًا بالاسلام مع فعلہ ذلک الفعل کالسجود لِلصَّنَمِ وَلِلشَّمسِ والقَمَرِ وَالصَّلِیبِ وَالنَّار-وَالسَّعیِ اِلَی الکَنَاءِسِ وَالبِیَعِ مَعَ اَہلِہَا وَالتَّزیِّ بِزِیِّہِم مِن شَدِّ الزَّنَانیر وفحص الرُّءُ وسِ-فَقَد اَجمَعَ المسلمون ان ہذا لایوجد الا من کافر-وَاَنَّ ہذہ الاَفعَالَ عَلاَمَۃٌ عَلَی الکُفر-وَاِن صَرَّحَ فَاعِلُہَا بِالاِسلَامِ)
(کتاب الشفاء:جلددوم:ص287)

(2)امام نووی شافعی نے رقم فرمایا:(وَکَذا مَن فَعَلَ فِعلًا اَجمَعَ المُسلِمُونَ انہ لا یصدر الا من کافر-وان کان صاحبُہ مُصَرِّحًا بِالاِسلَامِ مَعَ فِعلِہٖ کالسجود للصلیب اوالنار،والمشی الی الکنائس مع اہلہا بزیہم من الزنانیروغیرہا) (روضۃ الطالبین جلدہفتم:ص290)

توضیح:جس طرح شعارکفر یعنی زنارباندھنا،قشقہ لگانا،صلیب پہنناوغیرہ علامت کفر ہے، اسی طرح معبودان کفار کی تعظیم بھی علامت کفر ہے۔ غیر مومن معبودان کفار کی تعظیم میں حیثیتوں کافرق معتبر نہیں۔ پتھرکے بت کو مشرکین پوجتے ہیں۔ کوئی اس کی تعظیم اس نیت سے کرے کہ وہ پتھر بھی مخلوق الٰہی ہے تو یہ عذر قبول نہیں ہوگا، اور اس پر حکم کفر عائد ہوگا۔وہ پتھر اب خالص پتھر نہیں،اس کے ساتھ معبودیت کا تصور بھی ہے۔

اس مقام پر حجر اسود کی تعظیم کے سبب اعتراض نہیں ہوگا،کیوں کہ اس کی تعظیم کا حکم شریعت میں واردہے اور وہ شعائر اللہ میں سے ہے۔صفا ومروہ پر زمانہ جاہلیت میں دوبت تھے۔ صفا پر اُساف نامی بت تھا اور مروہ پر نائلہ نام کا بت تھا۔

زمانہ جاہلیت میں مشرکین جب صفا ومروہ کی سعی کرتے تو ان بتوں پرتعظیم کے واسطے ہاتھ پھیرتے۔فتح مکہ کے بعد یہ بت توڑ دئیے گئے۔ مومنین کو صفا ومروہ کی سعی میں کفار کی مشابہت کا شبہہ ہوا،پس ارشاد الٰہی نازل ہوا:

(ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما)(سورہ بقرہ:آیت 158)

ترجمہ:بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یاعمرہ کرے،اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے چکر لگائے۔(کنز الایمان)

غیرمومن معبودان کفار کی تعظیم وتکریم اور شعائر اللہ وحضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام ومومنین کی تعظیم سے متعلق امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کا ایک بصیرت افروز فتویٰ ہے۔اس میں علامت کفر کی بھی عمدہ وضاحت ہے اور معبودان کفار کی ہرقسم کی تعظیم کے کفر ہونے کی تفصیل ہے۔فتاویٰ رضویہ سے سوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔

سوال پنجم:یہ کہنا کہ وید ہنود میں شرک نہیں۔ ہنود کو بالقطع مشرک کہنا صحیح نہیں۔بتوں کو سجدہ کرنا ان کا باعث کفر نہیں ہوسکتا کہ یہ سجدہ تعظیمی ہے، جیسے فرشتوں نے آدم کوکیا تھا اور بتوں سے شفاعت کا امیدوار رہنا ایسا ہے جیسے اہل اسلام کا انبیا سے امیدوار شفاعت رہنا، اور مشائخ نے اکثر اذکار وافکار ومراقبات جوگیان ہنود سے لیے ہیں۔اس قسم کے ہفوات ہدایت وارشاد کے باب سے ہیں یا درپردہ بیخ کنی اسلام کے اسباب ہیں۔

جواب سوال پنجم:ہنود قطعاً بت پرست مشرک ہیں۔وہ یقینا بتوں کو سجدہ عبادت کرتے ہیں،اور بالفرض نہ بھی ہو تو بتوں کی ایسی تعظیم پربھی ضرور حکم کفرہے، اورانہیں بارگاہ عزت میں شفیع جاننا بھی کفر، ان سے شفاعت چاہنا بھی کفر کہ قطعاً اجماعاً یہ افعال واقوال کسی مسلم سے صادرنہیں ہوتے، نہ کوئی مسلمان، بلکہ کوئی اہل ملّت بت کی نسبت ایسا اعتقاد رکھے،اور اس میں صراحۃً تکذیب قرآن ومضادت رحمن ہے۔

شرح فقہ اکبر میں ہے:(قال ابن الھمام:وبالجملۃ فقد ضم الی تحقیق الایمان اثبات امور الاخلال بھا اخلال بالایمان اتفاقا-کترک السجود لصنم وقتل نبی او الاستخفاف بہ او بالمصحف او الکعبۃ:الخ)

(محقق ابن الہمام نے فرمایا: حاصل یہ ہے کہ وجودایمان کے لئے چندامور کے اثبات کا انضمام کیاجائے گا، اور ان میں خلل اندازی بالاتفاق ایمان میں خلل اندازی کے مترادف ہوگی،جیسے بُت کو سجدہ نہ کرنا، کسی نبی کو قتل نہ کرنا، نبی یامصحف یا بیت اللہ شریف کی توہین نہ کرنا: الخ:ت)

اعلام بقواطع الاسلام میں قواعد امام قرافی سے ہے:
(ھذا الجنس قد ثبت للوالد ولو فی زمن من الازمان وشریعۃ من الشرائع فکان شبھۃ دارءۃ لکفر فاعلہ-بخلاف السجود لنحو الصنم او الشمس فانہ لم یرد ھو ولا ما یشابھہ فی التعظیم فی شریعۃ من الشرائع فلم یکن لفاعل ذٰلک شبھۃ لاضعیفۃ ولا قویۃ فکان کافرا-ولانظر لقصد التقرب فیما لم ترد الشریعۃ بتعظیمہ بخلاف من وردت بتعظیمہ)

(یہ جنس، والد کے لئے ثابت ہے اگرچہ کسی زمانے یاکسی شریعت میں ہو،پس یہ شبہہ کفرفاعل کے لیے دافع ہوگا بخلاف اس کے کہ مثل بت یا سورج کو سجدہ کیاجائے، کیوں کہ وہ اور جو بھی اس کے مشابہ ہو،تعظیم میں، کسی شریعت میں وارد نہیں ہوا، لہٰذا اس کام کے کرنے والے کے لئے کوئی ضعیف اور قوی شبہہ نہیں، پس کرنے والا کافرہے، اور جس کی تعظیم کے لئے شریعت میں کچھ وارد نہیں ہوا، ارادہ تقرب کے لئے اسے نہیں دیکھاجائے گا بخلاف اس کے جس کی تعظیم کے لئے شریعت وارد ہوئی۔ت)

شفاشریف میں ہے:(کذٰلک نکفر بکل فعل اجمع المسلمون انہ لایصدر الامن کافروان کان صاحبہ مصرحا بالاسلام مع فعلہ ذٰلک الفعل السجود للصنم وللشمس والقمروالصلیب والنار:الخ)

(اسی طرح سب ایسے کام جن کا صدور کفارسے ہوتاہے،اگروہ دعوی اسلام کے باوجود وہ کام کرے تو اس کی تکفیر پرمسلمانوں کا اتفاق ہے، اور ہم بھی اس کی تکفیر کرتے ہیں جیسے چاند، سورج یا کسی بت یا صلیب اورآگ وغیرہ کے آگے سجدہ کرنا: الخ:ت)

اُسی میں ہے:(کل مقالۃ صرحت بنفی الربوبیۃ او الوحدانیۃ اوعبادۃ احد غیراللّٰہ او مع اللّٰہ فھی کفرکمقالۃ الدھریۃ والذین اشرکوا بعبادۃ الاوثان من مشرکی العرب واھل الھند والصین:مختصراً)

(ہرایسی گفتگو جس سے نفی ربوبیت یا نفی الوہیت کی تصریح اور اظہارہوتا ہو، یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ کسی اور کی عبادت کرنا کفرہے، جیسے دہریوں کی گفتگو اور مشرکین عرب میں سے ان لوگوں کی گفتگو جو بت پرستی کی وجہ سے مشرک ہوئے اور اہل ہند اور اہل چین کی گفتگو۔اھ مختصراً:ت)

اذکار، افکار، مراقبات کاجوگیوں سے لیاجانا افترائے بے مزہ ہے اور ممکن وشاید سے کوئی کتاب آسمانی نہیں ٹھہرسکتی،نہ لیت ولعل سے کوئی صریح مشرک بت پرست قوم کتابی۔

مشرکین ہنود کے شرک وکفر کامنکر،ان اقوال مخذولہ تعظیم وشفاعت اصنام کامظہر ضروربددین گمراہ ملحدکافر ہے، والعیاذباللہ تعالیٰ۔

شفاشریف میں ہے:(ولھذا نکفر من دان بغیر ملۃ المسلمین من الملل او وقف فیہم اوشک او صحح مذھبھم-وان اظھر مع ذلک الاسلام و اعتقدہ واعتقد ابطال کل مذھب سواہ،فہو کافر باظھارہ من خلاف ذٰلک)

(لہٰذا ہم ان لوگوں کی تکفیر فرماتے ہیں جو ملت اسلامیہ نہ رکھنے والوں کاطریقہ اختیارکرتے ہیں،یا ان کے معاملہ میں توقف یا شک کرتے ہیں،یا ان کے مذہب کو صحیح قراردیتے ہیں، اگرچہ باوجود اس روش کے اسلام کا اظہارکریں اور اس پر عقیدہ رکھیں اور اپنے بغیر ہرمذہب کوباطل یقین کریں۔ یہ لوگ کافرہیں،اس لیے کہ انہوں نے اس چیز کا اظہارکیا جس کے خلاف ان سے ظاہرہوا:ت)

عجب شان الٰہی ہے۔یہی ناپاک وبے باک بات یعنی اصنام سے انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کو معاذاللہ ملانا پہلے ایک خبیث نے مسلمانوں کو مشرک بنانے کے لئے لکھی تھی کہ بت پرست بھی شفاعت خواہی اور اس کے مثل افعال ہی بتوں سے کرکے مشرک ہوئے، یہی باتیں یہ لوگ انبیاء اولیاء کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ اور ابوجہل شرک میں برابرہیں۔

اب یہی مردود وملعون قول دوسرے نے مشرکوں کو مسلمان ٹھہرانے کے لیے کہا کہ بتوں سے شفاعت خواہی،ان کی تعظیم حتی کہ انہیں سجدہ کفر نہیں کہ مسلمان بھی توانبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم کرتے،ان سے شفاعت مانگتے ہیں:ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم: نسأل اللہ العفو والعافیۃ (گناہوں سے بچنے اور نیکی اپنانے کی طاقت بجزاللہ تعالیٰ، بلند مرتبہ عظیم القدر کی توفیق کے کسی میں نہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے عفووعافیت مانگتے ہیں۔ت) واللہ تعالیٰ اعلم“۔(فتاویٰ رضویہ:جلدنہم:جزاول:ص217-216-رضا اکیڈمی ممبئ)
(فتاویٰ رضویہ:جلد 24-ص165-162-جامعہ نظامیہ لاہور)

توضیح: منقولہ بالاعبارت کے آخر میں بطور اشارہ اسماعیل دہلوی کا ذکر ہے،جس نے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی تعظیم وتوقیر کو بتوں کی تعظیم وتوقیر کے مماثل قرار دے کر تقویۃ الایمان میں مسلمانوں کو ابوجہل کے برابر مشرک قراردیا۔

اسماعیل دہلوی کے بعد خواجہ حسن نظامی (1955-1878)کا اشارۃً ذکرہے جو اپنی متعددتصانیف میں ویدک دھرم کوآسمانی دھرم، وید کوآسمانی کتاب،ہنو د کو غیر مشرک اور کتابی،اورہندواوتاروں کوپیغمبر ثابت کرنے کی کوشش میں تاحیات مبتلا رہا۔امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے ”الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیہ“خواجہ حسن نظای کے باطل نظریات کے رد میں لکھا تھا۔یہ رشید احمد گنگوہی کا شاگر د تھا۔اپنے زمانے کا صلح کلی تھا۔

اسلام سے قبل آسمانی مذاہب میں سجدۂ تعظیمی کی اجازت تھی، لیکن غیر مومن معبودان کفار کی تعظیم وتکریم کا حکم کسی بھی آسمانی مذہب میں نہیں دیا گیا۔بتوں کی تعظیم صرف کفار ومشرکین انجام دیتے ہیں اورچوں کہ بتوں کومعبود سمجھ کر تعظیم وتکریم کرتے ہیں،لہٰذایہ کفریہ فعل ہوا۔کفریہ فعل میں کفار کی مشابہت کفر ہے۔اس میں نیت کا اعتبار نہیں۔
کوئی شخص محض تعظیم کی نیت سے بھی غیر مومن معبودان کفار کی تعظیم کرے تو یہ بھی کفر ہے، کیوں کہ کفریہ فعل میں کفار کی مشابہت ہے۔(ولانظر لقصد التقرب فیما لم ترد الشریعۃ بتعظیمہ بخلاف من وردت بتعظیمہ)کا یہی مفہوم ہے کہ سجدہ میں غیر مومن معبودان کفار کی عبادت وتقرب کی نیت ہو،یا تعظیم کی نیت ہو، بہر صورت یہ کفر ہے، کیوں کہ غیر مومن معبودان کفار کی تعظیم کا حکم کسی آسمانی مذہب میں نہیں دیا گیا۔

جن کی تعظیم کا حکم ہے،یعنی مومنین اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام،پس ان کو سجدۂ تعظیمی حرام ہوگا۔اگر کفار نے ان کو معبود بنالیا ہوتو ان کے مجسمے یا ان کے فوٹوکو سجدۂ تعظیمی بھی کفر ہوگا،کیوں کہ کفار ومشرکین ان کو معبو د سمجھ کران کے مجسمہ وفوٹوکوسجدہ کرتے ہیں۔ کسی غیر اللہ کومعبود سمجھ کراس کی تعظیم وتوقیر کفر ہے،پس ان صالحین کے مجسمہ یاتصویر کو سجدہ تعظیمی بھی کفر ہوگا، کیوں کہ مشرکین کے کفریہ فعل میں ان کی مشابہت ہے۔

امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:”اشباہ والنظائر وغیرہا معتمدات اسفار میں ہے:عبادۃ الصنم کفر ولا اعتبار بما فی قلبہ وکذا لو صور عیسی علیہ الصلٰوۃ یسجد لہ-وکذا اتخاذ الصنم لذلک وکذا لو تزنر بزنار الیہود والنصاری دخل کنیستہم او لم یدخل“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص149-رضا اکیڈمی ممبئ)

ترجمہ:بت کی عبادت کفر ہے۔ دل میں جوکچھ ہے،اس کا اعتبارنہیں۔ایساہی حکم اس کاہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تصویر بناکر اسے سجدہ کیا۔اسی طرح سجدہ کے لیے بت بنانے کا حکم ہے۔اسی طرح اگرکسی نے یہود ونصاریٰ کا زنار باندھا،خواہ ان کے گرجا میں داخل ہو یا نہ ہو۔

حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ تعالیٰ برگزیدہ رسول اور اولو العز م انبیائے کرام میں سے ہیں۔نصاریٰ نے انہیں معبود بنالیا ہے۔وہ عبادت کے طورپر ان کی تصویر کو سجدہ کرتے ہیں،خواہ وہ تصویر کاغذی ہو، یا مجسماتی۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تصویر کو سجدہ کرنے میں نصاریٰ کے کفریہ فعل کی مشابہت ہے،لہٰذا یہ کفر ہے۔دیگرغیر معبود مخلوقات کی تصویر کو سجدہ اسی وقت کفر ہوگا، جب عبادت کی نیت ہو۔

کفارکی تعظیم اور معبودان کفار کی تعظیم میں فرق

کفار کی تعظیم بعض صورتوں میں کفر ضرورہے،لیکن وہ علامت کفر نہیں۔غیرمومن معبودان باطل کی تعظیم علامت کفر ہے، کیوں کہ غیرمومن معبودان کفار کی تعظیم صرف کفار انجام دیتے ہیں، بلکہ جو جس قوم کا معبود ہو، صرف وہی قوم اس کی تعظیم وتکریم کرتی ہے۔

مجوسی قوم اہرمن ویزدان کومعبود مانتی ہے تو ان کی تعظیم بھی وہی لوگ کرتے ہیں۔ قوم ہنود جن معبودان باطل کومعبود کومانتی ہے،ان کی تعظیم بھی صرف یہی لوگ کر تے ہیں۔ جو مذہبی امور کفار کے ساتھ خاص ہوں، ان کوانجام دینا ایمان وتصدیق کے منا فی ہے۔

کفار کی تعظیم نہ کافروں کے ساتھ خاص ہے،نہ ہی ان کا شعار ہے۔ نصاریٰ کی تعظیم نصاریٰ کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ جینی،بدھسٹ،یہودی وغیرہ بھی نصاریٰ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اسی طرح نصاریٰ بھی دوسرے کفار کی تعظیم کرتے ہیں،لہٰذا یہاں تفریق ہوگی۔

اگر کافر ہونے کی حیثیت سے کسی کافر کی تعظیم ہے،پس یہ کفر کی تعظیم ہے،اورکفرکی تعظیم کفر ہے۔ اگر کسی دوسرے سبب سے کافر کی تعظیم ہے تو یہ حرام ہے۔ کفار اصلی سے کسی ضرورت ومصلحت کے سبب مدارات جائز ہے۔ تعظیم اور مدارات میں فرق ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المر جع والمآب

وضاحت:معبودان کفار اورشرعی احکام:قسط اول،بحث دوم کی دلیل پنجم سے قبل کچھ تصحیح کی گئی ہے۔ وہ مندرجہ ذیل ہے۔

(معبودان باطل کوسجدۂ تعظیمی وسجدۂ عبادت دونوں کفر ہے،کیوں کہ یہ علامت کفر ہے۔ معبودان باطل کے علاوہ دیگر مخلووقات کوسجدۂ تعظیمی حرام ہے،سجدۂ عبادت کفر ہے۔
اگرکوئی شخص صرف اللہ تعالیٰ ہی کومعبود برحق مانتا ہے،اورمعبود باطل کو سجدہ کیا،لیکن معبود باطل کی تعظیم یااس کی عبادت کا قصد نہیں کیا تو وہ عند اللہ کافر نہیں،لیکن حکم ظاہر میں وہ کافر ہے، کیوں کہ معبودان باطل کو سجدہ کرنا کفارکی مذہبی عبادت ہے۔حکم ظاہر میں اس کو کافرسمجھا جائے گا۔اس کے ساتھ کافروں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔اگر معبودباطل کوسجدہ کرتا توعند اللہ بھی کافر قرار پاتا،کیوں کہ غیراللہ کوسجدہ عبادت وسجدہ تعظیمی دونوں کفر ہے۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے