سیاست و حالات حاضرہ

اب عدالتوں میں فیصلے حقائق پر نہیں اکثریت کی رضا جوئی پر ہوں گے

تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گولا بازار گورکھ پور
استاذ: دارالعلوم امام احمد رضا بندیشرپور سدھارتھ نگر یو۔پی۔

ہمارے ملک بھارت کو ویسے تو جمہوری ملک کہا جاتا ہے لیکن زمینی سطح پر اس کی جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو 80 بنام 20 فی صد کا معاملہ سامنے آجاتا ہے جہاں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو فقط 15 سے 20 فی صد حقوق فراہم ہوتے ہیں جس کی بے شمار مثالیں ہم نے ماضی میں دیکھی ہیں۔ جن کا اعداد و شمار یہاں بے جا ہوگا۔ کیوں کہ جمہوریت کو مضبوط بنانے والی عدالت و صحافت ہوتی ہے؛ صحافت کا تو برا حال ہے اور تاریخ کے سب سے نچلی سطح کی صحافت ملک میں جاری ہے، عدالت کا بھی وہی حال ہوا جارہا ہے ملک کی عدالتیں آبادی کا تناسب دیکھ کر فیصلہ کرتی نظر آرہی ہیں۔ تین سال قبل جہاں سارے ثبوت مندر کے خلاف ہونے کے باوجود ایودھیا کی مسجد والی زمین مندر کو دے دی گئی اور مسلمانوں کو بھیک میں دوسری زمین دی گئی کیا عدالت نے یہ ساری باتیں نہ کی تھی کہ مندر کا کوئی ثبوت نہ مل سکا، آزادی کے بعد بھی یہاں مسلمانوں نے نماز ادا کی تھی اس طرح کی کئی ایک باتیں عدالت نے کہی تھی جس سے وہ جگہ مسلمانوں کو دیا جانا چاہیے تھا مگر مسلمانوں کو نہیں ملی۔ کیوں۔۔۔ اس لیے کہ اگر ایسا ہوجاتا تو ملک کا اکثریتی طبقہ ناراض ہوجاتا ہے۔
اسی طرح حالیہ معاملہ کرناٹک کا ہے؛ جہاں مسلم بچیوں کو حجاب پہن کر اسکول و کالج آنے پر پابندی عائد کردی گئی، جب معاملہ ہائی کورٹ میں پہنچا تو آج ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر مقدمہ خارج کردیا کہ ”تعلمی اداروں کا حجاب پر پابندی عائد کرنا درست ہے کیوں کہ حجاب کسی مذہب کا لازمی عمل نہیں۔“
ذرا عدالتوں میں بیٹھے ان ججوں کی جہالت تو دیکھیئے! کس طرح کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ حجاب اسلام کا لازمی عمل نہیں؟؟؟ جب کہ ہمارے مذہب کی سب سے بڑی قانونی کتاب قرآن نے علی الاعلان حجاب اور پردہ کو خواتین کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ (اے نبی! اپنی بیویوں اور مسلم عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی (جلابیب) چادریں تھوڑی سی اپنے اوپر لٹکائیں) مسلم عورتوں کا اپنے چہروں پر چادر ڈالنا ہی تو وہ حجاب ہے جس کا بیان قرآن میں علیٰ الاعلان ہے اور یہ حکم لازمی ہے، جس کی تفسیر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے: اللہ تعالیٰ نے مسلم عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے پیش نظر اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں۔
یہ قرآن کا صاف لفظوں میں مسلم خواتین پر پردہ اور حجاب کو لازم قرار دینا کیا عدالتوں میں بیٹھے ان ججوں کو نہیں معلوم اور اگر نہیں معلوم تو کسی معتبر اسلامی قانون داں سے کیوں مدد نہیں لی گئی؟ کیوں عدالت نے یہ کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی عمل(حکم) نہیں۔ ہاں وہ تو ملک کی اکثریت چاہتی ہے نا کہ ان کے بہو بیٹیوں کی طرح مسلمانوں کی بھی بہو بیٹیاں برہنہ و نیم برہنہ بازاروں میں گھومتی پھرے تاکہ ان کے نظروں کی ہوس مٹتی رہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟؟؟

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!