سیاست و حالات حاضرہ

وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی

ازقلم: ڈاکٹر محمد شاہد رضا نوری

پادشاہی حکم صادر کیا کرتی ہے، غلامی مجبوری کو عادت بنادیتی ہے اور جمہوریت مشورے اور دلیلوں سے پختہ ہوتی ہے۔ عوامی حکومت میں سرکار کا عوام مخالف ہو جانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس سے خوفناک واقعہ تب ہے جب جمہوریت کے تمام ستون عوام کی مخالفت میں اتر جائیں۔ ان کے بڑے اہم فیصلے جانبداری اور ناانصافیوں کو بلندی عطا کرنے لگے، اور جھوٹ کو سچ پر یوں ترجیح حاصل ہو جائے کہ لوگوں کو سچ بولنے میں خوف پیدا ہو نے لگے۔ تب یہ سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اس طرح کے معاشرہ کا خاتمہ کہاں پر ہوگا۔ ہم اپنے ملک اور سماج کو کس سمت میں لے جا نا چاہتے ہیں اور جس سمت میں یہ ملک جا رہا ہے ، کیا اس کی آتما، اس کا کلچر، اس کی شناخت بچ پائے گی۔ اچانک ملک کی فضا اس طرح کیوں بدل گئی کہ ملک کی اقلیت خود کو نہ صرف غیر محفوظ بلکہ انتہائی مجبور و بے بس سمجھنے لگی۔ اس اقلیت نے جس نے پاکستان کے بٹوارے کے وقت محمد علی جناح اور دو قومی نظریہ کو یکسر مسترد کر دیا تھا، صرف اس لئے کہ اسے بھارت اپنے دل سے عزیز تھا اور آج اسی عزیز بھارت میں اسے کیا کیا دیکھنا پڑ رہا ہے۔ وہی اکثریت جس نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا خیال رکھا، آج وہ اس سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ غیروں ساسلوک روا رکھ رہی ہے۔
اتر پردیش الیکشن میں جیت کے بعد بلڈوزر کے ساتھ جشن منانا خوفزدہ کرنے والا تو تھا ہی، بلکہ یہ ایک ایسا پیغام تھا کہ جسے دیکھ کر آئندہ سرکار کی کارروائی کا پتہ چلتا ہے۔ جمہوریت میں ہار اور جیت ایک چناوی عمل ہے، سرکار کی تشکیل کے بعد بر سراقتدار پارٹی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اس ملک کو اس ریاست کو ترقی سے ہمکنار کرائے تاکہ اس جگہ رہنے والے لوگوں کے بنیادی مسائل ختم ہوں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں، مگر ایسا کچھ ہوتا نہیں ہے۔ برسوں سے وعدے کئے جاتے رہے ہیں، لیکن اسے نبھانے کی قوت کسی بھی سرکار میں نظر نہیں آئی، لیکن اب گزشتہ کچھ برسوں میں سیاست کی جیت کو سماج پر تھوپنے کا جو رویہ سامنے آرہا ہے، وہ ایک خطرناک رخ اپنا رہا ہے۔ جمہوریت میں سماج سیاست سے بڑا ہوتا ہے، مگر اب سیاست سماج پر حاوی ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ میں ٹکراؤ کی نوبت آ گئی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور عوامی فلاح کی اسکیمیں سماجی شعور سے لاپتہ ہو گئیں اور اس کی جگہ ہندو، مسلمان کی سیاست نے سماج کا رویہ ہی تبدیل کر دیا گیا۔ اس پورے کھیل میں عدالت، انتظامیہ اور میڈیا نے بھی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ عدالت کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے آئے کہ ججوں نے ہی اس کی مخالفت شروع کر دی، میڈیا پانچ سال سالوں سے منافرت کا پٹارا لے کر ٹی وی اسٹوڈیو میں جم کر بیٹھ گیا، وہیں انتظامیہ کے ہاتھ میں بھی جانبداری کی لاٹھی چمکنے لگی ہے۔ ہر وہ معاملہ جس سے مسلمانوں کا سروکار ہے سرکار اس کے خلاف کھڑی ہونے لگی۔ سرکار کے اس رخ کو دیکھ کر سیدھے سادھے، ناخواندہ اور غریب عوام بھی اسی نفرت کو سچ سمجھنے لگے جو صرف ایک تصوراتی چیز ہے۔
کیا ایسا کبھی دیکھنے کو ملا کہ کوئی فلم ریلیز ہو اور سرکار کے وزرا اس کی تشہیر کرنے لگیں یہاں تک کہ وزیر اعظم بھی اس میں دلچسپی لیں۔ آخر ’کشمیر فائلس‘ میں اتنی دلچسپی کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس میں کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کا تصوراتی درد دکھایا گیا یا یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح کشمیریوں نے ہندووں کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔اگر اسی طرح کی فلمی ہمدردی بٹورنی ہیں تو اسی ہندوستان میں کئی ایسی فائلس موجود ہیں، اس پر بھی فلمیں بنانے کا مشورہ دیا جانا چاہئے۔فلمیں عوام کی تفریح کا سب سے سستا میڈیم تھا، اسے بھی کاروباریوں نے پی وی آر میں تبدیل کر کے مہنگا کر دیا اور اب فلموں کے ذریعہ سیاست کا نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا گیا، گویا اب اربوں کی فلم انڈسٹری بھی اوندھے منہہ گرنے والی ہے، کیونکہ بھارت کا ایک بڑا اقلیتی طبقہ فلموں کا دیوانہ ہے۔ ویسے مسلمانوں کو ویلن بنا کر پیش کرنے کا نایاب طریقہ تو برسوں پہلے سے شروع ہو گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس میں کوئی بھی فلم کامیاب نہیں ہوئی مگر اب پوری کمیونٹی کو بدنام کرنے اور اسے غیر قوموں کے نزدیک ولن بنانے کا کام جس طرح شروع کیا گیا ہے وہ خطرناک ہے۔
دوسرا معاملہ اسکولوں میں بچیوں کے حجاب کا ہے۔ اسکول یونیفارم کی آڑ میں مسلم شناخت کو تباہ کرنے کی چاہت میں عدالت کی مہر یہ ثابت کرتی ہے کہ کسی خاص کمیونٹی کو برباد کرنے میں اگر ہندوستانی تہذیب کو بھی برباد کرنا پڑے تو اس سے پیچھے نہیں ہٹاجائے گا۔کرناٹک میں بچیوں کے ساتھ جس طرح کا واقعہ ہوا وہ دل کو دہلا دینے والا تھا، ان لوگوں کے ساتھ ایسا صرف اس لئے ہوا کہ وہ مسلمانوں کی بچیاں تھیں ورنہ جسم کو ڈھانپ کر رکھنا ہر مہذب سماج کی سماجیات ہے۔ لڑکیوں کے لئے لباس، شرم و حیا اور مردوں کے سماج میں خود کو آگے بڑھانے اور محفوظ رکھنے کے لئے سب سے ضروری ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیتے ہیں اور دوسری طرف انہیں صرف اس لئے اسکولوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے کہ اس نے اپنے سر کو کیوں ڈھانپا۔ دراصل

جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں

اسکولوں میں پوچا ہوتی ہے، سرسوتی وندنا ہوتی ہے، ہولی کھیلی جاتی ہے، یہاں تک کہ مندر بھی ہوتا ہے، بچے پگڑیاں بھی بابدھتے ہیں۔ لڑکیاں سندور اور بھی لگاتی ہیں مگر اس پر کبھی کسی مسلمان نے اعتراض نہیں کیا، مگر حجاب کو قومی ایشو بنا کر اس پر عدالت کی مہر بھی ثبت کر دی گئی۔ صرف اس لئے کہ مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہو جائے یا پھر اچھے اسکولوں میں مسلم بچیوں کے داخلہ پر پابندی لگ جائے۔

آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جو آگیا
کتنے نقاب چہرہ اسرار سے اٹھے