مغرب نے یوکرین کے ساتھ جس طرح سے نصرت وحمایت کا اظہار کیا ہے ، وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے
تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی، امریکہ
عربی لغات میں ’حق ‘ اور ’حقیقت‘ کا مادہ اشتقاق ایک ہی ہے ، اس لیے لغوی مفہوم میں دونوں قریب المعنی ہیں ، لیکن جس پس منظر میں اسے سرنامۂ سخن بنایاگیاہے، وہ علیحدہ علیحدہ مفاہیم ومطالب اپنے جلو میں پنہاں رکھتے ہیں ۔’ حق ‘سے میری مراد یہ ہے کہ کوئی چیز واقعیت میں اپنی شناخت کیا رکھتی ہے اور اس کے مفہوم کی وضاحت کس طرح کی جاتی ہے ۔ اور’ حقیقت‘ سے میری مراد یہ ہے کہ آپ کے سامنے اُسی چیز کی حالیہ صورت کیسی ہے اور کس اندازسے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں ؟
لاریب مطلوب ومقصود تویہ ہے کہ مذہب اسلام کے سایے تلے اس کے ماننے والے وقار وعزت کے ساتھ رہیں اور دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار بھی ہوں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان ہی سب سے زیادہ ذلت ورسوائی اور ناکامی ونامرادی کے دور سے گزر رہے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ’حق ‘ تویہ ہے کہ مسلمان ہی غالب بھی رہیں اور کامیاب بھی ، لیکن ’حقیقت‘ یہ ہے کہ دونوں اعتبار سے ہم اپنی منزل سے بہت دور ہیں ۔
کیا یہ بات ڈھکی چھپی ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کو ابھی ایک ماہ کے قریب ہوئے ہیں ، لیکن اس ضمن میں یورپ وامریکہ کی سیاسی قیادت نے روس پر تابڑ توڑ پابندیاں عائد کی ہیں ۔ روس نے ۲۴؍فروری ۲۰۲۲ء میں یوکرین پر حملہ کیا ہے ، لیکن اس سے دودنوں پہلے ہی عالمی طاقتوں نے روس پر شکنجہ کسنا شروع کردیا۔ یورپی یونین نے ۲۲؍فروری ۲۰۲۲ء کو روس کے بینک، سیاسی عمائدین اور بعض سرکردہ افسروں پر جزوی پابندی لگائی ۔ پھر جاپان، امریکہ ، تائیوان، آسٹریلیا، جنوی کوریا، انگلینڈ، کناڈا، ناروے، سنگاپور،سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ، فرانس، اٹلی، آئی لینڈ، بہاماس، فن لینڈ اور جرمنی نےصرف ایک بار نہیں ، بلکہ کئی کئی بار اپنی لگائی ہوئی پابندیوں میں اضافہ کیا ہے ، جن میں روس کے پٹرول کی برآمدات اور پٹرول نکالنے کے لیے نئی تکنیک تک رسائی ، سوئفٹ انٹرنیشنل پیمنٹ سسٹم اورروس کے جہازوں کے لیے بیرون ملک پروازپر پابندی،دنیا بھر کے بینکوں میں رکھی ہوئے سرکاری خزانےاورروس کے امرا ، سیاسی عمائدین اور تجارتی برادری کے بیرون ملک رکھے ہوئے اثاثے کاانجماد، نیز سرکردہ افرادکے بین الاقومی اسفار پر پابندی،روس سے درآمدات اور برآمدات پر روک، وغیرہ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
اور سنیے پابندیوں کی یہ فہرست صرف سرکاری سطح پر ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ کئی عالمی تجارتی کمپنیوں نے بھی اپنے طورپر اس ’کارخیر‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھا۔ ان میں, Nokia,BMW,Johnson & Johnson, Heineken,Carlsberg,Nestle,Volvo Cars,Apple,Spotify Technology,Samsung, EnBW,Renault,Eneos,McDonald’s, Starbucks, Weatherford BNP Paribas,Nike,Baker Hughes,Citigroup,Ferrari, MoneyGram, Schlumberger,Imperial Brands,Toyota,Airbus,Exxon Mobil, Halliburton Decathlon خاص طورپر یاد رکھنے لائق ہیں ، جنھوںنے روس میں اپنی ساری تجارتی سرگرمیاں موقوف کردی ہیں ۔
تھوڑی دیر کے لیے اندازہ لگانے کی کوشش کیجیے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر لگائی جانے والی جملہ پابندیوں سے صرف روس کو نقصان نہیں ہورہاہے ، بلکہ پابندی لگانے والوں کو بھی بہت بڑے پیمانے پرہورہاہے ، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ روس پر پابندی کے نتیجے میں پوری دنیا میں تیل کی قیمت آسان چھورہی ہے ، نیز کساد بازاری اس حدتک نازک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے کہ اشیائے خوردونوش سے لے کر تعمیر ومرمت، لباس وزینت، وسائل نقل وحمل، مشین واوزار اورگھریلو استعمال میں آنے والی ہر چیز کی قیمت بے تحاشہ بڑھ گئی ہے ۔ اس لیے یوں کہہ لیجیے کہ روس کے خلاف متذکرہ بالا پابندیوں کی وجہ سے صرف دنیا کاکوئی مخصوص حصہ یا چند بڑی کمپنیا ں ہی متاثر نہیں ہوئی ہیں ، بلکہ روئے زمین پر بسنے والے ہرشخص پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ گفتگو کی اس منزل پر پہنچ کر تھوڑی دیر ٹھہر جائیے اور لمحے بھر کے لیے غورکیجیے کہ انھیں اپنوں سے کس قدر محبت اور پیار ہے کہ اپنوں کے لیے خود بھی مصائب وآلام سے گزر رہے ہیں اور ساری دنیا کو بھی تکالیف وشدائد سے گزرنے پر مجبور کررہے ہیں تاکہ ہر ذی روح اُن کے دردوالم میں شریک ہوجائے ۔
اچھا ، پھر یہ ساری پابندیاں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کےسبب نہیں ہیں ، بلکہ اپنے طورپر ہیں ۔ خیال رہے کہ روس مجلس امن کے اُن پانچ ممالک میں سے ایک ہے ، جنھیں کسی بھی قرار داد پر ویٹو کرنے کا اختیار ہے ۔ اس لیے روس کے خلاف مجلس امن کے ذریعہ کسی بھی طرح کی پابندی عائد کرنا دشوار تر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کی حمایت کرنے والے ممالک اپنے اپنے طورپر روس کے خلاف تادیبی اقدامات کررہے ہیں ۔ یہیں سے یہ اشارہ بھی مل جاتاہے کہ دنیا کے سواارب مسلمان ہر اقدام کے لیے جو مجلس امن کی طرف دیکھتے ہیں ، وہ ایک عذرلنگ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اگر چند مغربی ممالک اپنے طورپر ایسے اقدامات کرسکتے ہیں ، جن سے روس کوباہمی نزعات کے حل کے لیے گفتگو کی میز تک لانے پر مجبور کیا جاسکے، توآخر ۵۷مسلم ممالک اپنے خلاف ہونے والے قتل وخون ، ظلم وزیادتی اوربربریت وسفاکیت پر ایسے اجتماعی اقدامات کیوں نہیں کرسکتے، جن سے اپنے ہم مذہب کی نصرت وحمایت ہو اور ہمارے لیے امن وسلامتی کے سایے میں شب وروز گزارنے کی سبیل نکل سکے۔ اور یہیں سے یہ امر بھی دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں ہوجاتاہے کہ ہر معاملے میں اقدامات کرنے کے لیے ہمیں اقوام متحدہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے ، بلکہ خود بھی اجتماعی طورپرتادیبی فیصلے کی جرأت کرنی چاہیے ۔
صاحبو! جو لوگ میرے مزاج سے واقف ہیں ، اُن پر میرا مطلوب ومقصود اچھی طرح واضح ہوچکا ہے اور وہ یہ کہ ہم جوبات بات میں ہر مسئلہ کے لیے
غیروں
کو کوستے رہتے ہیں ، وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کریں ۔ آج روس اور یوکرین کاجومسئلہ ہے ، وہ بعینہ ہمارے لیے فلسطین اور عالم اسلامی کا ہے ۔ جس طرح ہم فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذریعہ ٹھوس اقدامات کروانے میں ناکام ہیں ، ٹھیک اُسی طرح عالمی طاقتیں روس کے حوالے سے، تاہم وہ ’ اقوام متحدہ‘ کاعذرپیش کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے، بلکہ خودہی آگے بڑھے اور جو اقدامات ممکن تھے، وہ کرگزرے اور پوری طاقت کے ساتھ انھیں نافذ بھی کیا۔ اور ہم ہیں کہ صرف زبانی احتجاج کرتے رہتے ہیں، روتے رہتے ہیں، گڑ گڑاتے رہتے ہیں اور دوسروں کو کوستے رہتے ہیں۔