از قلم: ساجد محمود شیخ، میرا روڈ ممبئی
مکرمی! گجرات کے ایک شہر سے یہ خبر آئی کہ وہاں فٹ پاتھ پر سو رہے ۱۸ مزدورں کو ڈمپر نے کچلا،جس کی وجہ سے ۱۳ مزدوروں کی موت واقع ہوگئی۔ یہ خبر سن کر انتہائی افسوس ہوا ۔ آج کے زمانے میں مزدوروں کے حالات بہت خراب ہیں ۔ ان کے تعلق سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن کو پڑھ کر یا سن کر دل دہل جاتا ہے ۔ وطنِ عزیز میں لاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں کے حالات ناگفتہ بہ تھے ۔ اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کو اپنی روزی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بحالتِ مجبوری جب ان مزدوروں نے اپنے وطن جانے کے لئے رختِ سفر باندھا تو سواری کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ لاچار و بے بس مزدوروں نے پیدل چلنے کو فاقہ کشی پر ترجیح دی اور کئی ہزار میل پیدل روانہ ہوگئے تھے مگر بھوک و پیاس کی تکالیف نے کئی ایک کی جان لے لی اور کئی ایک ٹرین کے نیچے آکر اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔ ان تمام حالات کے باوجود حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ حکومت جو سرمایہ داروں کے مفادات کی خاطر بے چین رہتی ہے اور آئے دن ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن سے ان سرمایہ داروں کو معاشی تحفظ فراہم کیا جائے مگر ان مزدوروں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
اِن تہی دامن،مصیبت زدہ اور دلِ سوختہ مزدوروں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا ۔ کہنے کو تو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور ان کے لئے تقاریر کی جاتی ہیں مگر ان مزدوروں کی بہبود کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ ان مزدوروں کی فلاح و بہبود پر توجہ دے ۔ کم از کم اجرت طے کرے اور ان مزدوروں کی رہائش کا مناسب انتظام کرے ۔ مزدوروں کی بدحالی پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے۔۔۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات