از قلم: محمد ایوب مظہر نظامی
صدر مدرس: جامعہ غریب نواز، طیب پور کشن گنج (بہار)
اپنے قبیلہ کی تعریف و توصیف میں مبالغہ آمیز مدحیہ قصائد لکھنے کی روایت تو بہت پرانی ہے، مگر اس میں تنقیدی پرائے میں گفتگو کرنا بہر حال دل گردہ کا کام ہے، اس موضوع پر کچھ لب کشائی کرنے میں صد فیصد امکان ہے کہ مقطع میں کوئی ایسی سخن گسترانہ بات آن پڑے جو تلخ ہونے کی وجہ سے جو آسودہ حال بانیان مدارس کی تابندہ پیشانی پر سلوٹوں کا باعث بن جائے، مگر قلم کی اس مجبوری کو کیا کیا جائے کہ حقائق عموماً تلخ ہی ہوا کرتے ہیں، لہذا میں بلا وجہ کی خوش عقیدگی کا مظاہرہ کرکے کسی معذرت خواہانہ لب و لہجہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے!
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!
اگر آپ کے اندر اتنی جرأت نہیں ہے کہ جس بات کو آپ حق سمجھتے ہوں اس کو حق اور جس کو غلط گمان کرتے ہوں اس کو غلط کہہ سکیں تو پھر آپ کو انصاف و دیانت کا خون کرنے کے بجائے ناقد و مبصر جیسے ذمہ دارانہ منصب کو خیرآباد کہہ کر قلم رکھ دینا چاہیے، اس ناگوار تمہید کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ آج سے دو دن قبل حضرت مولانا فناء القادری صاحب کی ایک تحریر بعنوان "سیمانچل میں مدارس کی بہتات، نتیجہ صفر” ہماری نظر سے گزری اور ہم نے اس تحریر پر ایک تنقیدی نوٹ لگا دیا، جس میں ہم نے کثرتِ مدارس کے قیام و وجود کو مذہب وملت کے لئے نقصان دہ گردانا، پھر کیا تھا ہمارا یہ جرم کچھ بانیان مدارس کے نزدیک گردن زدنی قرار پایا اور بے ادبی، بدزبانی اور ہرزہ سرائی کا بازار چشمِ زدن میں گرم ہو گیا، حق تو یہ ہے کہ ہم نے فرسودہ نظام و نصاب کے حامل مدارس اور آسودہ حال بانیان مدارس کو آئینہ دکھایا ہے جو سراسر کردنی خویش آمدنی پیش ہے، یہ اور بات ہے کہ جب غلطیاں طشت از بام ہو گئی تو بجائے خفیف ہونے کے دلیر ہو گئے اور احساس برتری نے انہیں حق آگے جھکنے نہیں دیا، ہاں! ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہمت دوش عزیزاں کا امتحان ہو گیا۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش!
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند!
آج ہم مسلمانوں کے درمیان نہ تو افرادی قوت کی کمی ہے نہ ہی مال و زر کی، علماء پیدا کرنے کے لئے ہمارے ملک میں مدارس کے جال بچھے ہوئے ہیں، مسلم سرمایہ دار ہر سال رمضان المبارک کے مہینہ میں اربوں روپے کی زکوٰۃ نکالتے ہیں یہ اس کے علاوہ ہے جو وہ سال بھر مشائخ کی دست بوسی کے وقت اور مزارات کے زنجیروں سے جکڑے ہوئے بکسوں میں بصورت نذرانہ پیش کرتے رہتے ہیں، دینے اور لینے والے ہاتھ تو نظر آتے ہیں لیکن سرمایہ جاتا کہاں ہے یہ نظر نہیں آتا، اربوں روپے خرچ کے باوجود اگر اسلامیان ہند کی حالت ایسی ناگفتہ بہ ہوں کہ وہ آلام و حوادث کے رحم و کرم پر جی رہے ہوں اور اپنے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ پاتے ہوئے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں تو واجبی طور پر دینے اور لینے والے دونوں ہاتھ شک کے دائرے میں آ جاتے ہیں کہ زکوٰۃ دینے والا بالکل نماز اور روزہ کی طرح زکوٰۃ کو ضرور ادا کرتا ہے لیکن ادا کرتے وقت اسے یہ خیال نہیں رہتا کہ اس کی زکوۃ کا قبلہ، کعبہ ہے یا کلیسا، اس طرح لینے والے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ جب وہ خرچ کرتا ہے تو اسے پتا بھی ہوتا ہے یا نہیں کہ جہاں وہ خرچ کر رہا ہے وہ جگہ درست ہے بھی یا نہیں؟
سچ تو یہ کہ جس طرح عوامی فلاح و بہبود کے لئے مرکزی حکومت کا فنڈ عوام تک پہنچتے پہنچتے دس فیصد بھی نہیں رہ جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ و صدقات کی رقم بھی مستحق تک پوری نہیں پہنچ پاتی، مدارس کے نام پر چندہ وصول کرنے والوں کا ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے اہل و عیال کو پوری مسلم قوم اور خود کو ایک ادارہ تصور کرتا ہے اور چندہ سے حاصل شدہ رقم کو اپنے بچوں کے نام کر دیتا ہے، دوسرا گروہ وہ ہے جو مجموعی رقم کے کم و بیش پچاس فیصد حصہ کو اپنا جائز حق سمجھتا ہے جبکہ باقی ماندہ پچاس فیصد کو جب وہ قوم کے حق میں خرچ کرتا ہے تو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ قوم پر احسان کر رہا ہے جبکہ تیسرا گروہ مخلص ہے جو قوم کی زکوۃ و صدقات سے حاصل شدہ رقم کو اسکی امانت سمجھتا ہے لیکن وہ اتنا سادہ لوح ہوتا ہے کہ اس کے معاونین اس کے ساتھ وشواس گھات کرتے ہیں اور اسے پتا تک نہیں چلتا ایسے نیک لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے،
یہود ونصاریٰ کے مذہبی زوال کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے جہاں ان کی بہت سی برائیاں بیان کی ہیں ان میں سے دو اہم ترین برائیاں ہمارے اس مضمون سے خاص تعلق رکھتی ہیں، ان دو میں سے ایک برائی عوام میں سرایت کیے ہوئی تھی اور وہ یہ کہ ان ( یہود ونصاریٰ) لوگوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنا لیا تھا اور دوسری برائی وہ تھی جو احبار و رہبان میں سرایت کر چکی تھی اور وہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو معمولی قیمتوں میں فروخت کیا کرتے تھے، اور سونا چاندی ذخیرہ کیا کرتے تھے، یہ دونوں برائیاں کافی حد تک اس امت میں بھی سرایت کر چکی ہیں، مسلم عوام کا حال یہ ہے کہ وہ خود احتسابی کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ کا عدل ان کی نظروں میں بے وزن ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے دوسری طرف، علماء کا حال یہ ہے کہ وہ دعا، تعویذ، غیر ضروری مدارس اور فرضی مزارات کے نام پر عوام کو گمراہ کرکے زر اندوزی میں لگے ہیں،نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے مسلمان کے گھر میں آرام و آسائش کے جو سامان موجود ہوتے ہیں وہ سب کے سب زر اندوز علماء کے گھر میں آپ کو مل جائیں گے، اس پر بینک کے کھاتوں میں جمع شدہ رقم مستزاد، جبکہ ان کے پاس اپنا کوئی کاروبار عموماً نہیں ہوا کرتا ہے
اس لئے میں ایک اپیل اہل سنت کے سرمایہ داروں سے بھی کرنا چاہوں گا کہ زکوٰۃ و صدقات دیتے وقت اس کی ضرورت و اہمیت کا خیال رکھیں کیا ہی خوب ہوتا اگر بجا عقیدت اور روحانیت کے بے روح خول سے باہر آ کر "ایدھی فاؤنڈیشن” کی طرح کم از کم ملکی سطح پر تعلیم، صحت، غریب اور باز آبادکاری کے کام منظم طریقہ سے انجام دیا جاتا۔