ازقلم: محمد کامل رضا مصباحی
ملک کے برے دن آنے لگے ہیں۔ سیاست دان دین کا علم دے رہے ہیں۔ علما و مشائخ خاموش ہیں۔ لیڈروں کا ایجنڈا ہماری خوراک، طرز زندگی طے کر رہا ہے۔ ہم مسلسل یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے، کتنا بولنا اور سوچنا ہے۔
امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ تعلیم، صحت، روزمرہ کی ضروریات مہنگی ہو گئی ہیں۔ غریبوں کے بچوں کے لیے ڈاکٹر، وکیل بننا مشکل ہو گیا ہے۔ سستی اور مفت تعلیم نہیں ملے گی اور آمدنی بھی مہنگائی کے حساب سے نہیں ہوگی تو یہ سب بہت بڑا عدم توازن کو جنم دے گا۔
پی ایچ ڈی کرنے اور پروفیسر بننے کے لیے یونین پہلی ضرورت بن گئی ہے جب کہ ٹیلنٹ بعد کی ضرورت ہوکر رہ گئی ہے۔ یونیورسٹی سے لے کر تمام سرکاری دفاتر اور اہم اداروں تک ایک کٹھ پتلی رکھ دی گئی ہے، جس کا کام ایک نظریے کو فروغ دینا، اسے پناہ دینا، دوسرے نظریات کو دبانا اور اپنے کارکنوں کو تیار کرنا ہے۔ یہ سب صحیح تاریخ کو دفن کر کے اور سہولت کے مطابق ایک نئی بحث شروع کر کے کیا جا رہا ہے۔
گویا ہنس کو کوا اور کوے کو ہنس کہلوایا جا رہا ہے۔ سال بہ سال طلباء کا وقت سرکاری نوکری کے انتظار میں گزر رہا ہے۔ ایک پوری نسل تباہی کے دہانے پر ہے۔ دماغی صحت ایک بڑا مسئلہ بننے جا رہی ہے۔ مطالعہ کا آغاز یہ ہے کہ گاندھی سے نفرت کیسے کی جائے۔
نوجوانوں میں برقع پر پابندی لگانے میں دلچسپی جاگ اٹھی ہے۔ لوگ ہندوستانی زبان اردو سے نفرت کرنا سیکھ رہے ہیں۔ جبکہ ہندی کا ہر چوتھا اور پانچواں لفظ اردو ہے۔ عربی، فارسی، اردو کے بغیر ہندی کا تصور نہیں، لیکن اردو کو ایک خاص مذہب سے جوڑ کر فروغ دیا جا رہا ہے۔
پارٹی کا کارکن ہونا عوام کے لیے باعث فخر بن گیا ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ نوکریاں آئی ٹی سیل میں آرہی ہیں جن کا کام صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح دکھانا ہے۔ سوشل میڈیا پر دن رات پروپیگنڈا جنگ جاری ہے۔
بچے جئے شری رام کے پرتشدد نعرے لگا رہے ہیں۔ وہ سائنسدان نہیں بننا چاہتے۔ وہ اپنے والدین سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ جے این یو میں تحقیق کرنے والے دہشت گرد ہیں، وہ ملک دشمن ہیں۔ جو لوگ زیادہ پڑھ کر لکھتے ہیں وہ ملک دشمن ہو جاتے ہیں، یہ خیال گاؤں گاؤں پھیل چکا ہے۔ اس لیے بچوں کو محب وطن بنانا اولین ترجیح بن گیا ہے اور ایسے لایعنی خیالات سے دور رکھنا ہر ایک کی مشترکہ ذمہ داری بن گئی ہے بچے محبت سیکھیں بھی کیسے؟ رات دن ٹی چینلوں میں نفرتی پروگراموں کو نشر کیا جا رہا ہے چھوٹے نیتا سے لے کر بڑے نیتا تک ہر ایک جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں لگا ہے موجودہ وزیر اعظم کا حال تو یہ ہے کہ وہ کپڑے سے دنگائیوں کو پہچاننے کی بات کرتے ہیں ملک میں امن قائم کیسے ہو؟ معاشیات کے اعتبار سے ملکی ترقی کیسے ہو؟ اس پر غور و فکر کرنے کے بجائے لایعنی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔
جس ملک میں ہر روز پچیس فیصد لوگ بھوکے ہی سو جاتے ہیں اس ملک کا وزیراعظم ایک دن میں کروڑ روپیہ اپنی سیکورٹی دستہ میں خرچ کرتا ہے ملک میں نفرت کا عالم یہ ہے کہ مندر کے پاس مسلمانوں کو دکانیں لگوانے سے منع کرتے ہیں جب کہ خود کو غیر متشدد بتاتے ہیں امن کے پرستار کہتے ہیں۔
ایک بڑی جماعت مغلوں کی عمارتوں پر خوب انگشت نمائی کر رہی ہے پرانی یادوں کو حرپنے کی تیاری میں لگی ہے بابری مسجد کے بعد قطب مینار اور دیگر عمارتوں کو اپنانے کے لیے کورٹ میں دستک دے رہی ہے سچ مچ میں ہمارا دیش بدل رہا ہے۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں ملک کے ہر شعبے میں قابلیت میں کمی آئی ہے جو کہ کئی سالوں سے زیادہ ہے۔ ہم نے دنیا کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے ذہن میں جتنا ڈالا جاتا ہے، ہم اتنا ہی سمجھنے کے قابل ہورہے ہیں کیوں کہ کتابوں سے ہمارا رشتہ ٹوٹتا جا رہا ہے۔
ہم وہاں نہیں جا رہے ہیں جہاں ہم پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ آنے والا دور ہماری نسل کو بہت رلائے گی اور کہے گی کہ سچ مچ میں میرا دیش بدل چکا ہے۔