ایڈیٹر کے قلم سے سیاست و حالات حاضرہ

جو ہوا حال ہمارا سو تمھارا ہوگا

تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گولابازار گورکھ پور
9792125987

آج سے تقریباً دو ہفتہ قبل ملک کی برسراقتدار حکومت بی۔ جے۔ پی۔ کی ترجمان نو پور شرما اور سیاسی رہنما جندال نے پیغمبر اسلام کی شان میں نہایت ہی نا زیبا کلمات استعمال کرتے ہوئے شدید گستاخی کی، جس کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے اور ان میں شدید غم وغصہ دیکھنے کو ملا، جانے کتنے ہی احتجاجی مظاہرے ہوئے جانے کتنے تھانوں میں امن وسکون کے ساتھ ایف۔آئی۔ آر۔ درج کرانے کی کوشش کی گئی لیکن نہ تو انتظامیہ نے کوئی کا رروائی کی اور نہ ہی حکومت نے معاملہ کو سنجیدگی سے لیا،مزید برآں آ ئینی اجازت سے صداے احتجاج بلند کر ر ہے لوگوں کو بدنام کر کے ان کے خلاف کا رروائیاں کی گئیں حتیٰ کہ ایک مسلم نوجوان کو صوبہ جھارکھنڈ کے رانچی میں پولیس نے گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود جب گستاخان رسول کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوئی تو ”آلٹ نیوز“ جو کہ ایک فیکٹ چیکنگ یعنی خبروں کی حقیقت سامنے لانے والی ویب سائٹ ہے اس کے بانیوں میں سے ایک محمد زبیر نے اس معاملہ کو عالمی پیمانے پر پیش کرتے ہوئے ان گستاخوں سمیت ان کی سیاسی پارٹی کو بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی جس کے بعد ہر چہار جانب سے ملک کی حکومت پر دباؤ بننا شروع ہوگیا اور دوسرے اسلامی ممالک نے اپنے پیغمبر کی شان میں گستاخی کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ شروع کردیا، جس کے پیش نظر بی۔جے۔پی۔ کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی اور اس نے مذکورہ ممبران کو پارٹی سے بے دخل کردیا۔ یہ بات ملک کے نفرت پسند لوگوں کو کچھ زیادہ راس نہ آئی اور انھوں نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے محمد زبیر کو آڑے ہاتھوں لینے کا منصوبہ بنا لیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر کے ذریعہ محمد زبیر کے چار سال پرانے ایک ٹوئیٹ کو ”ری ٹوئیٹ“(دوبارہ ٹوئیٹ) کر دیا گیا جس میں آج سے چار سال قبل محمد زبیر نے 1983ء میں ہرش کیش مکھرجی نامی فلم ساز کے ذریعہ بنائی گئی فلم ”کسی سے نا کہنا“ جو کہ سی۔بی۔ایف۔سی۔ یعنی فلموں کو سند فراہم کرنے والی مرکزی ادارے کی جانب سے منظور شدہ فلم ہے اس فلم کی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ”2014ء سے پہلے ہنی مون ہوٹل اور 2014ء کے بعد ہنومان ہوٹل“ در اصل انھوں نے ملک میں پھیلتی نفرت کی کھیتی پر تنز کسا تھا۔اسی چار سال پرانے ٹوئیٹ کو ایک نامعلوم شخص کے ذریعہ وائرل کر پولیس کو شکایت درج کرائی گئی جس کے بعد پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے محمد زبیر کو گرفتار کرلیا اور ان کے بینک بیلنس سے لے کر ذاتی معاملات میں چھان بین شروع کردی ہے، محمد زبیر ابھی بھی پولیس حراست میں ہیں۔ خدا ہی جانے انجام کیا ہوگا؟؟؟؟ اور اب اس نامعلوم شخص نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کو ڈیلیٹ کردیا۔ جب کہ اس سے ایک روز قبل محمد زبیر کے وکیل ورندا گرور نے عدالت میں اس اکاؤنٹ سے متعلق کچھ سوالات کیئے مگر انھیں نظر انداز کردیا گیا، اور پولیس نے برجستہ کہہ دیا کہ ہم اس اکاؤنٹ کی تفتیش نہیں کریں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون تھا اس اکاؤنٹ کا مالک کون تھا جس نے محمد زبیر کے چار سال پرانے ٹوئیٹ کو غلط رنگ دے کر پولیس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ کیا اس کے پیچھے محمد زبیر کی وجہ سے ہزیمت اٹھانے والی بی۔جے۔پی۔ تھی جس کی طرف اشارہ ٹی۔ایم۔سی۔ کے سیاسی رہنما ساکیت گوکھلے کی تفتیش کرتی ہے یا فرقہ پرست تنظیموں میں سے کوئی تھا؟؟؟
ان سارے سوالوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ 1983ء میں بنی فلم کی ایک کلپ جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اس میں ”ہنی مون ہوٹل“ کو کاٹ چھاٹ کر ”ہنومان ہوٹل“ لکھا گیا تھا۔ فلم آج سے 39/سال قبل بنی تب سے لے کر آج تک نہ جانے کتنے ہندؤں نے فلم دیکھی مگر تب تک کسی کی مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی پچھلے چار سالوں میں محمد زبیر کی ٹوئیٹ سے کسی کی مذہبی جذبات مجروح ہوئی اور آج جب محمد زبیر نے گستاخان رسول کو عالمی پیمانے پر بے نقاب کردیا تو آن کی آن میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچ گئی۔ یاللعجب۔ اور اس پر ہمارے اکابرین کی خاموشی مزید کسی دوسرے زبیر کو پیدا نہ ہونے دے گی ؎

سچ کے سودے میں نہ پڑنا کہ خسارہ ہوگا
جو ہوا حال ہمارا سو تمھارا ہوگا

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے