ترتیب۔ریاض فردوسی۔9968012976
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے،اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے،تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے(سورہ النصر۔مکمل سورہ۔پارہ۔30)
اِس سے مراد مکہ مکرَّمہ کی فتح ہے، یعنی جب مکہ مکرَّمہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوجائے۔ زیادہ تر مفسرین کے مطابق یہ سورت فتحِ مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس میں ایک طرف تو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مکہ مکرَّمہ فتح ہوجائے گا اور اُس کے بعد عرب کے لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے، چنانچہ واقعہ بھی یہی ہوا، اور دُوسری طرف چونکہ اسلام کے پھیل جانے سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دُنیا میں تشریف لانے کا مقصد حاصل ہوجائے گا، اس لئے آپ کو دُنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کے لئے حمد، تسبیح اور استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اس میں دی ہوئی خوشخبری کی وجہ سے بہت سے صحابہؓ خوش ہوئے، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ اسے سن کر رونے لگے، اور وجہ یہ بیان کی کہ اِس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دُنیا سے تشریف لے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے۔فتح سے مراد کسی ایک معرکے میں فتح نہیں ، بلکہ وہ فیصلہ کن فتح ہے جس کے بعد ملک میں کوئی طاقت اسلام سے ٹکر لینے کے قابل باقی نہ رہے اور یہ امر واضح ہوجائے کہ اب عرب میں اسی دین کو غالب ہوکر رہنا ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح مکہ لی ہے ۔ لیکن فتح مکہ 8ھ میں ہوئی ہے اور اس سورہ کا نزول 10 ھ کے آخر میں ہوا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت سراء بنت بنہان کی ان روایات سے معلوم ہوتا ہے جو ہم نے دیباچے میں نقل کی ہیں ۔ علاوہ بریں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول بھی اس تفسیر کے خلاف پڑتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورۃ ہے ۔ کیونکہ اگر فتح سے مراد فتح مکہ ہو تو پوری سورہ توبہ اس کے بعد نازل ہوئی تھی ، پھر یہ سورۃ آخری سورۃ کیسے ہوسکتی ہے ۔ بلا شبہ فتح مکہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھی کہ اس نے مشرکین عرب کی ہمتیں پست کردی تھیں ، مگر اس کے بعد بھی ان میں کافی دم خم باقی تھا ۔ طائف اور حنین کے معرکے اس کے بعد ہی پیش آئے اور عرب پر اسلام کا غلبہ مکمل ہونے میں تقریبا دو سال صرف ہوئے۔
مختصر خطبہ حج الوداع !
حج کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفہ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنی اونٹنی) قصوا لانے کا حکم فرمایا۔ اونٹنی تیار کر کے حاضر کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس پر سوار ہو کر) بطنِ وادی میں تشریف فرما ہوئے اور اپنا وہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دین کے اہم امور بیان فرمائے۔‘‘
حجة الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تاریخ ساز خطبہ جسے خطبۂ حجة الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، امت مسلمہ کے لئے یہ قیامت تک ایک آئین اور ابدی پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خطاب مسلمانوں کی زندگی کا حصہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کی حمد ثنا کرتے ہوئے خطبے کی یوں ابتدا فرمائی: خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، اس نے اپنے بندے (رسول) کی مدد فرمائی اور تنہا اس کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کو زیر کیا۔‘‘
لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یکجا ہو سکیں گے (اور غالباً اس سال کے بعد میں حج نہ کر سکوں گا)
انسان سارے ہی آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے اِنتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔ بس بیت اﷲ کی تولّیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات علیٰ حالہٖ باقی رہیں گی۔‘‘
خطبۂ حجۃ الوداع ایک ایسا عظیم الشان بین الاقوامی دستاویز اور عالمی منشور ہے جو نہ صرف اپنے دور میں آگے یا پیچھے کوئی مثال نہیں رکھتا، بلکہ آج بھی انسانیت کے پاس ایسا کوئی عظیم منشور موجود نہیں ہے جسے دینی تقدس کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے ایک عالمی جماعت یا امت کام کرنے کے لئے تیار کی گئی
میدان عرفات میں آخری نبی، نبی رحمت محمد رسول اللہﷺ نے 9 ذی الجہ ، 10 ہجری (7 مارچ 632 عیسوی) کو آخری خطبہ حج دیا تھا۔ آئیے اس خطبے کے اہم نکات کو دہرا لیں، کیونکہ ہمارے نبی نے کہا تھا، میری ان باتوں کو دوسروں تک پہنچائیں۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
خطبہ کے اہم نکات!
۱۔ اے لوگو! سنو، مجھے نہیں لگتا کہ اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا۔ میری باتوں کو بہت غور سے سنو، اور ان کو ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔
2۔ اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت اور مال حرمت والے ہیں۔ (تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے )۔
3۔ لوگو کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو،
4۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو۔ تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔
5۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے، اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔
6۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو (معاف کر دو)۔
7۔ تم عورتوں پر حق رکھتے ہو، اور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو۔
8۔ عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ قائم رکھو، کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار (پارٹنر) اور بے لوث خدمت گذار رہتی ہیں۔
9۔ کبھی زنا کے قریب بھی مت جانا۔
10۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، صرف اللہ کی عبادت کرو، پانچ فرض نمازیں پوری رکھو، رمضان کے روزے رکھو، اورزکوۃ ادا کرتے رہو۔ اگر استطاعت ہو تو حج کرو۔
11 ۔زبان کی بنیاد پر, رنگ نسل کی بنیاد پر تعصب میں مت پڑ جانا, کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر, عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں, ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو۔
برتری صرف تقوی کی وجہ سے ہے۔
12۔ یاد رکھو! تم ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے،خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔
13۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ، نہ کوئی نیا دین لایا جاےَ گا۔ میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔
14۔ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، قرآن اور میری سنت، اگر تم نے ان کی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔
15۔ سنو! تم لوگ جو موجود ہو، اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانا۔ اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیں۔اور یہ ممکن ہے کو بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ (اور عمل) کر سکیں۔
پھر آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور کہا،
16۔ اے اللہ! گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا۔
آخر میں !
اللہ بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ،
اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے، جو اس پیغام کو سنیں،پڑھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں،اور اس کو آگے پھیلانے والے بنیں۔ اللہ ہم سب کو اس دنیا میں نبی رحمتﷺ کی محبت اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے، اور آخرت میں جنت الفردوس میں اپنے پیارے نبی ﷺ کے ساتھ اکٹھا کرے، آمین یارب العالمین۔