تحریر: شہادت حسین فیضی، کوڈرما جھارکھنڈ
ایک عینی مشاھدہ: ایک شخص زمین کے ایک ٹکڑے کا دعویدار تھا۔ اور محلے والوں کا کہنا تھا کہ یہ زمین صرف اس کی نہیں ہے بلکہ پورے گاؤں والوں کی ہے۔ وہ شخص اپنے اہل و عیال کے ساتھ زمین پر قبضہ کرنے کی نیت سے وہاں آکر بیٹھ گیا۔ دوسری جانب محلے والے انہیں وہاں سے بھگانے کے لیے شورو غل کے ساتھ زدوکوب کرنے لگے۔ وہ شخص صبر کرتا رہا اور بدلے میں نہ اس نے ہاتھ اٹھایا اور نہ ہی زبان درازی کی بلکہ خاموشی کے ساتھ دفاع کرتا رہا۔ وہ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی جوابی کاروائی یا کسی بھی طرح کی بدزبانی سےدور رکھا۔ اہل محلہ کے کسی بھی طرح کے ظلم کے خلاف وہ صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا رہا۔ ایک دن اچانک سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔ اب پورے محلے والوں کی ہمدردی اس کے ساتھ ہو گئی۔ لوگوں نے زمین اس کے بچوں کے حوالے کردیا اور ماضی کی تمام تر تلخیاں اس گھر کے صبر استقلال کی وجہ سے یکسر ختم ہو گئیں۔ نتیجہ اس کے حق میں اس لیے ہوا کہ اس نے صبر کیا۔ ورنہ اگر وہ بھی جوابی کارروائی کرتا اور اہلمحلہ میں سے کوئی ایک بھی دکھی یا زخمی ہوا ہوتا یا کوئی فوت ہوجاتا تو انجام الٹا ہوتا۔
بات زمین کی آگئی ہے تو ایک حدیث بھی پڑھ لیں۔ ترجمہ: حضرت ابو سلمہ روایت کرتے ہیں کہ میرے اور کچھ لوگوں کے درمیان زمینی تنازعہ تھا۔ تو انھوں نے اس کا تذکرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ تو انہوں نے فرمایاکہ۔ اےابوسلمہ زمین کے معاملے میں بچو (اور اس کو چھوڑ دو) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی دوسرے کی زمین ایک بالشت بھی قبضہ کرلی تو اسے قیامت میں سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (بخاری: ج 1- ص332)
بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس نے کسی دوسرے کی زمین ایک بالشت بھی قبضہ کرلی تو اسے قیامت میں سات زمینوں میں دھنسایا جائے گا۔ (بخاری: ج 1- ص332)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابو سلمہ کو نہ لڑائی جھگڑا کی صلاح دی اور نہ ہی کیس مقدمہ کرنے کی بلکہ صبر کرنے کی تلقین کی کہ اس میں دنیا کا بھی فائدہ ہے اور آخرت کا بھی۔
صبر :
صبر کا مفہوم بہت ہی وسیع معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کو صبر سے زیادہ بہتر اور زیادہ وسیع چیز بخشی نہیں گئی ہے (بخاری)
اس حدیث پاک کے مفہوم کو ہم مختلف جملوں میں استعمال کر سکتے ہیں مثلا:
(1) زندگی کے اعلی اقدار میں صبر سے زیادہ مؤثر کوئی دوسرا عمل نہیں ہے۔
(2) جس کو صبر کی خوبی حاصل ہوگئی وہ سب سے زیادہ طاقتور انسان بن گیا۔
(3) جمالیاتی خوبیوں میں صبر سب سے افضل و اعلیٰ خوبی ہے۔
(4) صبر کے مقابلے میں مادی ضروریات، اعلی اقدار کو ختم کرتی ہے۔
(5) جس کو صبر کی دولت مل گئی اس کو دنیا کی ساری دولت و عزت مل گئی۔
(6)وہ عمل جو تمام بھلائیوں، خوبیوں اور محاسن کا جامع ہو۔اسکا نام صبر ہے۔
(7) صبر کے بغیر اعلی تہذیب و تمدن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
(8) جس پر کسی دوسری چیز کو ترجیح نہیں دی جاسکتی وہ صبر ہے۔
(9)صبر کے ذریعہ ہی ذہن و فکر میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(10)صابر سب سے پہلے اپنی مدد آپ کرتا ہے۔
(11) صبر کرنے والا ہر طرح کی پریشانی، مشکلات اور تنگی سے نجات پاتا ہے۔
(12) صبر کرنے والے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت رہتی ہے۔
اس کے اور بھی مفہوم بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کا سب سے جامع مفہوم آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے 63 سالہ حیات طیبہ ہے جو صبر و شکر کا مجموعہ ہے۔
حیات طیبہ کے چند گوشے
(1) ظالم کےظلم پہ مظلوم جب خاموش رہتا ہے تو اللہ تعالی ظالم سے بدلہ لیتا ہے۔ صحن کعبہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو دعوت دیتے ہوئے دیکھ کر ابوجہل نے غصے میں جل بھن کر آقا کریم پر پتھر پھینک دی جس سے چوٹ لگی اور خون بہنے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زخم کو دبا کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے۔ ٹھیک اسی وقت حضرت حمزہ ابن ابی طالب تشریف لائے۔ کسی نے کہا کہ دیکھ ابوجہل نے تمہارے بھتیجے کو زخمی کر دیا ہے۔ اور جب حضرت حمزہ نے آقا کریم کا خون دیکھا تو ان کا بھی خون کھول گیا۔ اور انہوں نے اسی وقت ابو جہل کی خبر لی اور خوب پٹائی کر دی۔ یہاں تک کہ وہ معافی مانگنے لگا۔ تو اسے چھوڑ کر حضرت حمزہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ خوش ہو جائیں میں نے ابو جہل سے بدلہ لے لیاہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ ابو جہل کو زیادہ سخت چوٹ اس وقت لگے گی جب آپ ایمان لے آئیں گے۔ اور مجھے بھی اسی وقت سچی خوشی ہوگی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ طیش میں آکر اسی وقت داخل اسلام ہو گئے۔ ("رحمۃ اللعالمین” از قاضی محمد سلیمان ص: 63/ ج 1)
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی معجزہ ہے لیکن سادگی اتنی ہے کہ تمام انسانوں کے لیے آپ کی زندگی کو اللہ تعالی نے نمونہ بنا دیا ہے۔
(2) اللہ تعالی فرماتا ہے
۔ نیکی اور بدی برابر نہیں ہے۔ جب کسی سے بحث ہوجائے تو سب سے بہتر جملوں سے بحث کرو۔ ایسا کرنے سے تمہارے درمیان اور اس کے درمیان جو دشمنی ہے وہ دوستی میں بدل جائے گی اور وہ تمہارا گہرا دوست ہو جائے گا۔ اور یہ دولت صرف اور صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے۔ (جسے دشمن کو دوست بنانے کا ہنر آگیا) وہ بہت بڑا نصیب والا ہے۔(حم السجدة:34-35)
صابروں کے جملے ہمیشہ میٹھے ہوتے ہیں اس لئے جو ان سے گفتگو کرتا ہے وہ اس کا اسیر ہو جاتا ہے۔ حیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ گوشہ ملاحظہ کریں۔ حضرت زید بن سنعہ رضی اللہ عنہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نبی آخر الزماں کی تمام صفات کو دیکھ لیا تھا۔ انہیں صرف ایک صفت(صبر) کی آزمائش کرنی تھی۔ کہ آخری نبی کی صفت ان کی کتاب میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ انہیں جتنا زیادہ غصہ دلایا جائے گا وہ اتنا ہی نرم ہوتے جائیں گے۔(یعنی ردعمل اور غصہ ان میں ہوگا ہی نہیں) اس کے لئے انہوں نے آقا کریم صلی اللہ وسلم کو قرض دیا اور وصولی کے ليے وقت مقررہ سے پہلے ہی تقاضا کرنے حضور کے گھر پہنچ گئے۔ اور سخت جملوں کے ساتھ تقاضہ کرنے لگے۔ جوں جوں یہ سخت سے سخت جملے استعمال کرتے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نرم اور اچھے سے اچھے جملوں سے اس کا جواب دیتے۔ حضرت عمر جو وہاں موجود تھے برداشت نہیں کر سکے۔ اور آقا کریم سے اس کے ساتھ سختی کرنے کی اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا عمر جاؤ اس کا قرض ادا کر دو۔ اور تم نے جو ان کو ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں کچھ زیادہ ہی دے دینا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت زید مسلمان ہوگئے۔ اور اعلان فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی ایک ہے۔ اور آپ اللہ تعالی کے سچے رسول ہیں۔
(3) صبر کا ایک ماخذ صبورہ ہے جس کا معنی بنجر زمین کے ہیں یعنی اس میں دانہ اور پانی جو بھی ڈالا جائے لیکن اس میں پودا نہیں اگتا۔ ایسا ہی معاملہ صابر کے ساتھ بھی ہے کہ اس کے ساتھ جس طرح سے بھی پیش آ یاجائے اس میں ردعمل کا اور انتقام کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کے رد عمل کے طور پر کیا جانے والا کام، اور بولے جانے والے جملے گھر، سماج اور معاشرہ میں انتشار،انتقام اور لڑائی جھگڑے کے سبب بنتے ہیں۔ نیز یہ انسانیت، مصلحت اور سنت رسول کے خلاف ہیں۔
▪️آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے تھے کہ ایک دیہاتی پیچھے سے آیا اور دوش مبارک پر رکھی چادر کو زور سے کھینچا جس سے گردن سرخ ہو گئی۔ پھر اس نے بلند آواز سے کہا کہ اےمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے اتنا اتنا اور فلاں فلاں سامان دو۔ یہ سب جو تمہارے پاس ہے وہ نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا ہے۔ اگر ردعمل اور غصہ سے اس کا جواب دیا جاتا تو اس دیہاتی کی زندگی خطرے میں تھی۔ لیکن آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پوری بات صبر و تحمل کے ساتھ سن کر ارشاد فرمایا۔ کہ آپ نے بالکل سچ کہا ہے۔ بیشک یہ چیزیں نہ میری ہیں نہ میرے باپ کی۔ بلکہ میں اللہ تعالی وحدہٗ لاشریک کا بندہ ہوں اور یہ سب اللہ تعالی کا دیا ہوا ہی ہے۔ پھر حضور نے صحابہ کو حکم دیا کہ جو کچھ یہاں ہے وہ انہیں دے دو۔ وہ دے دیا گیا۔ لیکن اس دیہا تی کو یہ بہت کم لگا اور اس نے پھر ایک سخت جملہ کہا۔ اور یہ کہا کہ مجھے کچھ دیا ہی نہیں گیا ہے۔ یہ حقیر سی چیز لینے کے لیے میں یہاں نہیں آیا ہوں؟۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ساتھ اپنا گھر لے گئے ان کی ضیافت کی۔ دوسرے دن انہیں ان کی خواہش کے مطابق مال و دولت دی۔ تو وہ بہت خوش ہوا۔ اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نےآپ کو دنیا کا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ سخی پایا ہے۔ تو حضور نے فرمایا کہ جاؤ یہ جملہ میرے صحابہ سے کہہ دو تاکہ وہ بھی تم سے خوش ہو جائیں۔ انہوں نے صحابہ کے پاس جا کر وہ خوش کن جملے بھی کہے اور واپس آکر مسلمان بھی ہو گئے۔
(4) صبر کا مفہوم یہ بھی ہے کہ فریق ثانی کی طرف سے جو بھی اشتعال انگیزی کی جائے یا مصیبتیں ڈالی جائیں یا ظلم و زیادتی کی جائے ان سب کو خاموشی کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ اور پھر جب حالات نارمل ہو جائیں تو عقل و فہم کا استعمال کر کے مثبت اقدام کے ذریعہ اس نفرت کو کم یا ختم کرنے کی کوشش کرنے کا نام صبر ہے۔ اس لیے کہ جب آدمی بے صبری کے ساتھ اپنے مقابل کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس سفلی جذبات اور سطحی محرکات ہوتے ہیں۔ اب وہ اس وقت جو بھی کرے گا یا بولے گا اس سے غلطیاں سرزد ہوں گی۔ جو بعد میں اس کے لیے رسوائی کا سبب ہو گا۔ جب کہ ان حالات میں صبر کرنے والا یعنی وقتی ردعمل سے عاری شخص ہر حال میں محفوظ و مامون ہوتا ہے۔ اس کو اس واقعہ سے سمجھتے ہیں۔
غزوہ مریسیع جس کو غزوہ بنی مصطلق بھی کہتے ہیں۔ جو ماہ شعبان 5 ہجری مطابق 626 عیسوی کو پیش آیا تھا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ حسب سابق فتح کے بعد بھی کچھ دنوں کے لیے چشمہ مریسیع کے پاس ہی قیام پذیر رہنا پسند فرمایا۔ کہ ایک دن حضرت عمر فاروق کے غلام جہجاہ
غفاری کنواں کے پاس پانی لینے کے لیے گئے اسی وقت سنان بن دبرجہنی بھی کنواں سے پانی نکالنے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ دونوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا۔ نتیجتاً دونوں کے ڈول ٹکرائے۔ اور پھر دونوں میں دھکا مکی ہوگئی۔ اور تیز آواز میں بحث بھی کرنے لگے یہاں تک کہ دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ اور جہجاہ غفاری نے ایک ضرب لگائی جس سے سنان کا خون بہنے لگا۔ وہ گھبرا کر یا معاشر الانصار کی صدا بلند کر دی۔ جواب میں جہجاہ نے بھی یا معاشر المہاجرین کی آواز بلند کی۔ اب انصار و مہاجرین دونوں کود پڑے۔ قریب تھا کہ انصار و مہاجرین جو آپس میں بھائی بھائی بنے ہوئے تھے جنگ چھڑ جاتی فی الفور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز میں فرمایا کہ تم لوگ بے صبری میں جاہلیت کی صدا بلند کر رہے ہو جب کہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ دونوں کو الگ کیا اور فورا کوچ کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ کہیں بات اور نہ بڑھ جائے۔ غزوہ مریسیع کی کامیابی صرف دو بے صبروں کی وجہ سے ناکامی میں بدل جاتی کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حسن ترکیب سے تنازع ختم ہوا اور بھائی چارگی جو انصار و مہاجرین میں تھی باقی رہی۔ اس واقعہ میں ایک اور بات جو ہمارے لیے سبق ہے وہ یہ ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروپ کو الگ کر دیا۔ ان کے درمیان فوری طور پر فیصلہ نہیں کیا کہ ایسے ماحول میں فیصلہ کے نفوذ بھی محال ہو جاتا ہے اور بات بننے کے بجائے اور بھی بگڑ جاتی ہے۔
صبر کا سب سے اعلیٰ اور بہترین قسم یہ ہے کہ جب کوئی کسی کو تکلیف پہنچائے تو بدلے میں اس کو بھی تکلیف نہ دے بلکہ اس کے ساتھ بھلائی کرے اور اس کے لیے خیر کی دعا کرے۔ اور یہ صفت تمام انبیاء و مرسلین کی ہے۔ تمام نبیوں اور رسولوں نے اپنی اپنی امت سے کہا ہے کہ۔ تم جو ہمیں ستا رہے ہو اس پر ہم ضرور باالضرور صبر کرتے ہیں۔ (ابراہیم:12)
یعنی ہم بدلے میں تمہارے ساتھ ظلم و ستم کا معاملہ نہیں کریں گے۔ بلکہ ہم تمہاری بھلائی کی کوشش کرتے رہیں گے۔
الغرض صبرایک فولادی قوت کا نام ہے جس سے بڑے سے بڑا معرکہ سر کیا جاسکتا ہے۔ اور کامیابیوں کے بلند ترین مقام تک پہنچاجاسکتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔