نتیجۂ فکر: محمد امیر حسن امجدی رضوی
استاذ ومفتی: الجامعۃ الصابریہ الرضویہ پریم نگر نگرہ جھانسی یوپی
اے کاش ایک ایسی مدینے کی شام ہو
آئی قضا ہو زیست کی عمریں تمام ہو
دہلیزِ عشق پر رہوں دم توڑتا رہوں
پیشِ نظر وہ روضۂ خیر الانام ہو
آنکھوں میں لے کے جاؤں بسا روضۂ رسول
تاکہ لحد میں میرا کوئی احترام ہو
وقتِ اجل ہاں کلمۂ طیب سے پیشتر
وردِ زباں بھی کاش درود و سلام ہو
ہو جاؤں دفن شہر نبی میں اگر کہیں
خلدِ بریں میں’پوچھنا پھر،کیا! مقام ہو
بارش ہو رحمتوں کی میرے گورِ
ناز پر
مدفونِ شہرِ پاک پے رحمت جو عام ہو
زمزم شریف کا میں مروں پی کے آبِ پاک
تاکہ زباں نہ حشر تلک تشنہ کام ہو
روزِ جزا یہ پھر کہیں جو تشنہ کام ہو
آقا کے ہاتھ سے عطا کوثر کا جام ہو
ہیں زائرینِ طیبہ کہاں آئے جب ندا
محشر میں’کاش ان میں ہمارا بھی نام ہو
عاصی امیرؔ کی ہو یہ یارب دعا قبول
وقتِ قضا کہ آپ کے در پے غلام ہو