نتیجۂ فکر: شمس الحق علیمی، مہراج گنج
ہمیشہ خدا جس کی کرتا بیاں ہے
ہمارا تمہارا وہ شاہ زماں ہے
مری بات دل پر اثر کیوں نہ کرتی
محبت کی اپنی الگ ہی زباں ہے
زمانے میں یوں تو بہت بیٹیاں ہیں
مگر فاطمہ کی طرح اب کہاں ہیں
جو دائم کرے اپنے رب کی اطاعت
تو جنت میں اس کا الگ ہی مکاں ہے
قدم جب پڑا ہے حجر پر نبی کا
تبھی سے ابھی تک قدم کا نشاں ہے
زمانے کی رنگینیوں میں ہے اُلجھا
سنو دائمی ،،،،،،، زندگی تو وہاں ہے
مقدر میں سب کے وہ ساعت بھی آئے
کہ دیکھیں مدینے کا کیسا سماں ہے
یہی آرزو اب تو کرتا ہے شمسی
اجل آئے اس کو مدینہ جہاں ہے