از: عبدالقاسم رضوی امجدی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت
نوری دارالعلوم نور الاسلام قلم نوری مہاراشٹر
اس مادر گیتی پر بلا شبہ کروڑہا انسانوں نے جنم لیا اور بالآخر موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے کر اُن کا نام و نشان تک مٹا دیا،لیکن جنہوں دین اسلام کی بقاء و سر بلندی کے لیے اپنی جان ، مال اور اولاد کی قربانیاں دیں اور جن کے دلی جذبات اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت پختہ تھے، تاریخ کے اوراق پر اُن کے تذکرے سنہری حروف سے کندہ ہیں۔ ان اکابرین کے کارناموں کا جب جب ذکر کیا جاتا ہے، دلوں پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ انکے پر سوز واقعات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، بالخصوص واقعہ کربلا نہایت رقت وسوز کے ساتھ جذبہ ايثار و قربانی کو ابھارتا ہے۔ حضرت امام حسین اور انکے ۷۲ جانثار رفقاء رضی اللہ تعالی عنہم نے جس شان کے ساتھ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، تاریخ اسکی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے، اُن نفوس قدسیہ نے اپنا سب کُچھ لٹا دیا لیکن باطل کے آگے سر نہ جھکایا، جان دینا گوارا فرما لیا،لیکن شوکتِ اسلام پر حرف نہ آنے دیا۔
گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جان عالم ہو فدا اے خاندان اہل بیت
ماہ محرم الحرام جب بھی تشریف لاتا ہے کربلا والوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔شہدائے کربلا باالخصوص نواسہ رسول ، جگر گوشہ بتول، امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی الله تعالی عنہ کی ذاتِ اقدس کی شہادت حرارتِ ایمانی کو بیدار کرتی ہے۔۔سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب بیان سے بالا تر ہیں۔آپ کی فضائل و کمالات بیان کرنے سے زبان قاصر ہے۔
آپ کی قدرومنزلت کا اندازہ لگانے کےلئے رسول کریم ﷺ کی احادیث ہی کافی ہیں ۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حسین مُجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ تو گویا حسین رضی اللہ عنہ کی عزت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت، حسین رضی اللہ عنہ کی ذلّت و تکلیف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذلّت و تکلیف،حسین رضی اللہ عنہ کی گستاخی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ،
اور آگے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں،
خدا اسے دوست رکھے جو حسین کو دوست رکھے۔ یعنی جو حسین رضی اللہ عنہ کو دوست و محبوب رکھے تو خُدا اُسے دوست و محبوب رکھے گا۔اور جو حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بُغض و عناد و دشمنی رکھے گویا اُس نے خدائے وحدہٗ لاشریک سے دشمنی مول لی،اسی پر بس نہیں بلکہ اپنے لخت جگر اِمام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی عظمت و رفعت بیان کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ، حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ فرماتے ہیں بے شک حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ پتہ چلا جس نے حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا ستایا اُس یزید پلید نے حقیقتا باغ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول کو پیاس کی شدّت سے مُرجھا جانے پر مجبور و مظلوم کر دیا۔۔باغ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پھول خود تو مُرجھا گیا لیکن اپنے خون سے باغِ اِسلام کو سینچ کر دین اسلام کو تا قیامت لہلہاتا اور ہرا بھرا کر دیا، امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حسن سینے سے لےکر سر تک اور حسین سینے سے قدموں تک رسول کریم ﷺ کا عکس تھے۔ سید نا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات فضائل اخلاق کا مجموعہ تھی۔اِسی فضائل و کمالات کا حامل نبی کا دلارا، علی کا لال، فاطمہ زہرا کا جگر پارہ، جب میدانِ کربلا میں اُترتا ہے تو سر بلند ہوکر پرچم اسلام کو آسمانی فضاؤں میں لہراتا نظر آتا ہے۔۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جب میدان کربلا پہنچے تو یزید کو بڑی دلیری شجاعت سے کہا کہ میں تیری بیعت نہیں کرونگا ۔امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ نے ظلم و جبر کے آگے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی۔آپ نے اسلام کی سر بلندی کے لئے یزید پلید سے لڑنابہتر سمجھا ۔فرمایا موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔یزیدی لشکر کے ایک سپاہی عبد اﷲ بن عمار کہتے ہیں جب میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا محاصرہ ہوا تو خدا کی قسم میں نے حسین سے پہلے اور بعد کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو کثیر دشمنوں کی تعداد میں اس طرح گھیرا ہو ا ہو اور ان کے ساتھی قتل کر دئے گئے ہوں مگر پھر بھی وہ شجاعت و دلیر سے دشمن کے مقابلہ میں بے خوف و خطر بے نیام تلوار لیے کھڑے ہو۔روز عاشور آپ کی مصیبت بڑھتی جاتی آپ کے وقار و تمکنت میں اضافہ ہوتا جاتا اور چہرے کی تابندگی بڑھتی ہی جاتی۔جنگ کے دوان آپکے جسم مبارک پر ۳۳ زخم نیزوں کے ۴۳ تلواروں کے اور آپ کے پیرہن شریف میں ۱۲۱ سوراخ تیر کے تھے۔جنگ میں تین دن تک بھوک پیاس میں رہے مگر شجاعت کے وہ جوہر دکھائے جس سے دشمن پریشان حال رہا۔ ساری لڑائی میں دشمن پر خوف کے بادل چھائے رہے ۔ آپ نے ثابت کیا کہ اگر یقین محکم اور مقصد نیک ہو تو راہ حق میں آنے والے مصائب و آلام اور باطل قوتوں کی دولت و طاقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔یہی وجہ ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانیوں کو تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔
آپ نے ثابت کر دیا کہ میری رگوں میں خون رسول ﷺ ہے ۔میرے بازوں میں قوت حیدر ہے ۔میرے جیسا کوئی شہسوار نہیں ۔ کیونکہ میں نے دوش رسول ﷺ پر سواری کی ہوئی ہے۔میرے جیسا کوئی بہادر نہیں ہے اس لئے کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے اپنی شجاعت بخشی ہے ۔میں مظہر شجاعت رسول ﷺ ہوں ۔ کربلا میں یزید حق پر نہیں تھا اور اِمام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ حق پر تھے جس کی وجہ سے اب ساری دنیا کہتی ہے کہ یزید تھا اور حسین ہیں ۔
افضل ہے کل جہاں سے گھرانہ حسین کا
نبیوں کا تاجدار ہے نانا حسین کا
اِک پل کی تھی بس حکومت یزید کی
صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا ۔
جوان بیٹی کے خون سے جو کربلا لکھے
کتابِ عشق میں اُسے حسین کہتے ہیں،
رضی اللہ تعالی عنہ