تحریر:مشرّف شمسی
ایڈیٹر: پہلی خبر، ممبئی
اردو اخبارات ایک کمیونیٹی کی نمائندگی کرتا ہے۔چونکہ اردو اخبارات کو زیادۃ تر مسلم کمیونیٹی کے لوگ پڑھتے ہیں اسلئے ان اخباروں میں مسلمانوں سے منسلک خبریں کو ترجیح دی جاتی ہیں ۔ساتھ ہی مسلم محلوں اور حلقوں کی خبروں کو اولیت دی جاتی ہے۔لیکِن مہاراشٹر میں منترالے کے علاوہ شاید ہی کسی بھی کارپوریشن اور ضلع ہیڈ کوارٹر میں اردو اخبارات کی خبروں کا ترجمہ کیا جاتا ہے ؟ کیونکہ ان کارپوریشن اور ضلع ہیڈ کوارٹر میں شاید ہی کوئی اردو جاننے والا ملازم بچے ہیں۔مسلمانوں کے محلوں اور مسلمانوں کے مسائل دیگر زبان کے اخباروں میں بہت ہی کم اہمیت دی جاتی ہے اور اُن اخباروں میں مسلمانوں سے متعلق خبریں شائع بھی ہوتی ہیں تو مسلمانوں کو بدنا م کرنے کے غرض سے شائع کیا جاتا ہے۔لیکِن اردو اخبارات میں مسلم محلوں کی سڑکوں کی بدحالی ،پانی کے مسائل اور دوسرے کرائم کی خبریں چھپتی ہیں لیکِن اُن خبروں پر سرکاری محکموں میں کسی طرح کا اثر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے یہاں تک کہ مسلم لیڈران بھی یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اردو اخبارات کی کون سنتا ہے اسلئے حکومت اور سرکاری محکموں تک آواز پہنچانے کے لئے انگریزی ،ہندی اور مراٹھی اخباروں میں خبر شائع کرائی جاتی ہیں اور اُن اخباروں کے مدیر اور رپورٹروں کی خوشامد کرنی پڑتی ہیں۔
آخر اردو اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں سرکار یا متعلق محکموں تک پہنچتی ہیں۔اور اگر نہیں پہنچتی ہیں تو کیوں نہیں پہنچتی ہیں؟ ایک وقت تھا منٹرالے کے پی آر او محکمہ میں اردو زبان کے کئی پی آر او ہوا کرتے تھے لیکِن 2000 کے بعد زیادہ تر پی آر او محکمہ کے اردو زبان کے ملازمین ریٹائر ہوتے چلے گئے اُنکی جگہ کوئی نئی بھرتی نہیں کی گئی ۔اور اب اردو اخبارات کی خبروں کو مراٹھی یا انگریزی میں کرنے کے لئے ایک ہی عارضی ملازم ہے جو منتارالے اور اولڈ کسٹم ہاؤس دونوں کے کام دیکھتا ہے۔ایسے میں وہ یقیناً سبھی اردو اخباروں کی خبریں کو رپورٹ نہیں کر پاتا ہوگا۔وہ اکلوتا ملازم دو چار خبریں جسے وہ ضروری سمجھتا ہوگا اس پر ہی کام کرتا ہوگا۔مہاراشٹر جہاں اردو پڑھنے اور سمجھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے اس ریاست کے سیکریٹریٹ کا یہ حال ہے۔زیادہ تر ضلع ہیڈ کوارٹر اور کارپوریشن پی آر او محکمہ میں ایک بھی ملازم اردو جاننے والا نہیں ہے ۔اورنگ آباد،مالے گاؤں اور بھیونڈی جیسے کارپوریشن کو اس سے مستثنیٰ کر سکتے ہیں۔
اردو اخبارات کی خبروں کو نوٹس نہیں لئے جانے کی وجہ سے اردو اخبارات کی قدر بھی سرکاری محکموں میں لگاتار گرتی جا رہی ہے اور سرکاری آفیسروں کے سامنے اردو صحافیوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔اردو اخبارات کی پناہ میں صرف وہی سیاسی رہنما اور تنظیمیں جاتی ہیں جنہیں مسلمانوں کی سیاست کرنی ہوتی ہے یا مسلمانوں سے چندے کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلئے مسلم علاقے کی صورت بدلنے کے لئے اردو اخبارات کا فعال ہونا ضروری ہے۔اردو اخبارات فعال تبھی ھوگا جب سرکاری محکموں میں اُن اخباروں کی خبروں کی نوٹس لی جائیگی اور خبروں کی نوٹس تبھی ممکن ہے جب منٹرالہ ،ضلع ہیڈ کوارٹر،ضلع پریشد اور میونسپل کارپوریشن میں محکمہ رابطہ میں اردو زبان جاننے والے ملازم ضروری ہونگے۔یہ تبھی ممکن ہے جب اُردو اخبارات کے مدیر اور سرکار میں شامل مسلم نمائندے اس معاملے میں خصوصی توجہ دیں گے۔اور اس کام کو بنا کسی سیاست کے خاموشی کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کریں گے۔چونکہ یہ اُردو اخبارات کے وقار کا معاملہ ہے اور یہ ایک بنیادی کام ہے اس سلسلے میں دو سال پہلے اسلام جمخانہ میں سابق وزیر اعلی اشوک چوہان سےکالم نگار نے سوال بھی کیا تھا تو اُنہونے کہا تھا کہ ہماری سرکار آنے کے بعد اس کام پر ضرور غور کریں گے۔اب اشوک چوہان بھی سرکار میں شامل ہیں اور اُنہیں یاد بھی دلایا جا سکتا ہے ۔لیکِن یہ کام کسی کے کریڈٹ کا نہیں ہے بلکہ اردو اخبارات کے بقا کا ہے اور ٹھاکرے سرکار کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی اسد ضرورت ہے۔