تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
قرآن کریم جو ایک رہنما کتاب ہے اور ہر موڑ پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے پوری انسانی زندگی قرآنی احکام کے ارد گرد ہی چکر کاٹتی رہتی ہے، زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں قرآن نے رہنمائی نہ کی ہو انہیں چیزوں میں سے ایک کاشت کاری بھی ہے،
زراعت کھیتی باڑی کاشت کاری، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے انسان کو غذا ملتی ہیں اور پھر زندگی کی عمارت کھڑی رہتی ہے ، اگر انسان کاشت کاری چھوڑ دے تو پھر اسے ایک روٹی کا ٹکڑا بھی میسر نہیں آئے گا ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی غذا زمین سے وابستہ کی ہیں انسان زمین کے سینہ کو چیرتا ہے مٹی سے مقابلہ کرتا ہے تب جاکر دو وقت کی روٹی تیار ہوتی ہے ، اور جو لوگ یہ عمل کرتے ہیں عرف عام میں اسےکسان کہا جاتا ہے، قرآن کریم نے زراعت کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے اور اس کے سلسلہ میں آیات کریمہ بھی موجود ہے ۔۔ زراعت سے متعلق چند آیات کریمہ پیش خدمت ہے،
ارشاد خداوندی ہے ”اور ان لوگوں کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے، ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس سے غلے نکالے سو وہ اس میں سے کھاتے ہیں،اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور ہم نے اس میں چشمے جاری کردئیے،تاکہ وہ اس کے پھلوں سے کھائیں اور اسے ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، سو کیا وہ شکر ادا نہیں کرتے(سورہ یس : ۳۳، ۳۵)
اور ایک جگہ زراعت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری عز وجل ہے :”اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا اور اس میں پینے کا پانی ہے اور اس کے ذریعے درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں تم چراتے ہو،وہ تمہارے لیے اس کے ذریعہ کھیتی اور زیتون اور کھجوریں اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں(النحل: ۱۱، ۱۲)۔
زراعت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد خداوندی ہے :”اللہ کی ذات وہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ ہر قسم کی اگنے والی چیزیں نکالیں، پھر ہم نے اس سے سبزہ والی چیزوں کو نکالا ۔ ہم نکالتے ہیں اس سے دانے جو ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہیں۔ اور کھجور کے درخت یعنی اس کے کھپوں سے خوشے نکالے جو جھکے ہوئے ہیں، اور انگوروں کے باغ اور زیتوں کے باغ نکالے اور انار جو آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو ملتے جلتے نہیں ہیں۔ اس کے پھلوں کی طرف دیکھ لو اور اس کے پکنے کی طرف۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔”(سورۃ الأنعام: ۹۹)۔
ان آیات مبارکہ میں اللہ عزوجل نے مختلف غلے، اجناس، پھل فروٹ ، ان کی رنگ برنگی مختلف انواع واقسام کا ذکر کیا ہے کہ یہ ساری چیزیں زمین سے در آمد ہوتی ہیں، زراعت اور کاشت کاری کے لئے یہ کھتیاں اس سے مختلف اجناس ، اغذیہ، ترکاری ، پھل ، فروٹ، دانے ، غلے وغیرہ نکلتے ہیں، جس سے انسان مستفید ہوتا ہے ، ا پنی بقاء اورجان کی حفاظت کا سامان کرتا ہے ، یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں کہ اللہ عزوجل ایک ہی زمین سے ایک ہی جگہ مختلف قسم کے انواع واقسام، رنگ برنگے ، مختلف مٹھاس، کٹھاس، کرواہٹ اور پھیکے نمکین ، ترش پھل فروٹ نکالتے ہیں، یہ ساری چیزیں یہ نعمتیں زراعت اور کاشتکاری کے ذریعہ ہی زمین سے در آمد ہوتی ہیں ۔
کاشت کاری کی ترغیب
اللہ عزوجل نے نہ صرف زراعت کی فضیلت کو بیان کیا ہے بلکہ پیشہ زراعت کو اپنانے کاحکم دیا ہے ، اوراپنی جدوجہد اور زمین کی نقب زنی اور اس کے تہوں میں پہنچ کر زمین کی خیرات وبرکات سے اخذ واستفادہ پر انسان کو مامور کیا ہے ، ارشاد باری عز وجل ہے : ”وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخر بنا دیا سو تم اس کے راستوں میں چلو اور اس کی روزی میں سے کھاؤ، اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے” (الملک: ۱۵)۔
خود احادیث مبارکہ میں بھی قرآن کے مفہوم کی تائید میں مضامین وارد ہوئے ہیں، جس میں مسلمانوں کوکاشت کاری کو اپنانے کاحکم دیا ہے ، اوراس کے منافع اور فوائد کا ذکر کیا گیا ہے ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :”اطلبوا الزرق فی خبایا الأرض ”(رزق کو زمین کی پنہائیوں میں تلاش کرو)(الجامع الصغیر للسیوطی، حدیثے ۱۱۰۹)
اورایک روایت میں فرمایا: ” کسان اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتا ہے ” (الزارع یتاجر مع ربہ) (الفائق فی غریب الحدیث: ۱؍۳۵۰) اسی طرح نبی کریم ﷺ نے کسی بھی زمین کو بغیرزراعت کے یوں ہی چھوڑ دینے سے منع کیا ہے ”من کانت لہ أرض فلیزرعھا، أو لیمنحہا أخاہ، فإن أبی فلیمسک أرضہ” (صحیح البخاری، حدیث: ۲۴۹۳) ( جس کسی کے پاس زمین ہے ، تووہ اس میں زراعت کرے یا اپنے کسی بھائی کو دے دے ، اگر وہ بھائی لینے سے انکار کرے تواس زمین کو روکے رکھے)۔
ان احادیث سے کاشت کاری کی اہمیت وافادیت کا علم ہوتا ہے ، کسان اور کاشت کار سے یہ کہا جارہا ہے ، زمین کے تہوں ، اس کے سینہ میں جو اللہ نے تمہارا رزق رکھا ہے، اس کے اسباب کو اپنا کر اس رزق کو اس کی پنہائیوں سے برآمد کرو، اللہ کے ساتھ کاشت کاری کی شکل میں تجارت کرو، جو تجارت تمہارے لئے نہایت زیادہ نفع بخش ہوتی ہے ، کہ تھوڑی سے دانوں کے زمین پر دالنے منوں ٹنوں دانے نکل آتے ہیں، اس لئے کبھی بھی زمین کو بغیر کاشت یوں ہی چھوڑا نہ جائے ، اگر خود کاشت کاری نہیں کرسکتے تو دوسرے بھائیوں کو کاشت کار ی کے لئے دو۔
کسان کی جدوجہد کا بدلہ دنیا وآخرت میں ،
پیشہ زراعت ایک ایسا پیشہ ہے ، جس کے دنیوی منافع بھی ہیں، اخروی بھی، زرعی پیشہ اگر خداوندی احکام کی بجاآوری کے ساتھ ہو تو یہ تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے ، اس لئے کہ کاشت کار کاشت کاری کرتا ہے تو اس سے اللہ کی تمام مخلوق مستفید ہوتی ہے ، بلکہ اس کے اس عمل کو اتنا محبوب ومرغوب گردانا گیا کہ ہر درخت سے نکلنے والے پھل اور دانے پر ثواب اور نیکی کا وعدہ کیا گیا، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :” ما من مسلم یزرع زرعا او ریغرس غرسا فیأکل منہ طیر أو إنسان أو بہیمۃ، إلا کان لہ بہ صدقۃ” (صحیح البخاری: ۲۱۵۲) ( جو مسلمان بھی کاشت کاری کرتا ہے ، پودا لگاتا ہے ، اس سے پرندے ، انسان یا جانور کھاتے ہیں تو وہ اسکے حق میں صدقہ ہوتا ہے )بلکہ کاشت کاری اور شجر کاری میں سستی اور کاہلی کی ممانعت وارد ہوئی ہے ”إن قامت الساعۃ وفی ید أحدکم فسیلۃ ، فاستطاع ألا تقوم حتی یغرسھا، فلیغرسھا، فلہ بذلک أجر” (مسنداحمد: حدیث: ۱۲۵۱۲) ( اگر قیامت قائم ہوجائے ، تمہارے ہاتھ میں کوئی پیڑ یا پوداہو، اگر تم اس پودے کو لگا سکتے ہو تو لگاؤ ،
اس تناظر میں ہم کسانوں کی حالت کو دیکھتے ہیں قرآن و احادیث اس کی عظمت کے گواہ ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں کے کسانوں کی حالت دگرگوں ہیں کسانوں کی محنت ان کی جد و جہد سب پر حکومت پانی پھیر رہی ہے کسان جن کی زندگی ہمیشہ کھیتوں میں بسر ہوتی تھی اب حال یہ ہے کہ وہ سڑکوں پر پڑے ہیں اور حکومت سے چیخ چیخ کر اپنا حق مانگ رہے ہیں اپنی دو وقت کی روٹی کی بھیک مانگ رہے ہیں مگر حکومت کو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ایسا قانون لاگو کردیا گیا ہے جس سے کسانوں کی راحت و آرام سب کچھ چھن گیا ہے حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ غریب کسانوں کی فریاد ہے جو سیدھے عرش سے ٹکراتی ہے اور پھر اللہ کے قہر کو دعوت دیتی ہے