اس وقت ملک میں جو کشیدگی کے حالات ہیں وہ بیان سے باہر ہیں۔ ہر طبقہ کے لوگ پریشاں حال نظر آرہے ہیں۔ اس وقت پوری انسانیت کورونا نامی قہر خداوندی سے جنگ کر رہی ہے اور اس کی دوا بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ مگر واے ہمارا ملک! اس کے باشندے ابھی بھی تالی،تھالی،دیا،پٹاخہ میں منہمک ہیں۔ اور ملک کی میڈیا کا بھی کیا پوچھنا؟ اس نے تو تالی،تھالی اور دیا،موم بتی کو بھی مذہبی رنگ دے دیا، کورونا وائرس کو بھی اسلام کا کلمہ پڑھا دیا۔ اور اس کی زہر افشانیوں نے اس ملک کی گنگا، جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرکے ملک کے ایک بڑے طبقے کے دل میں اس بات کو بھر دیا کہ کورونا کو بھی مسلمانوں نے ہی پھیلایا۔ اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لیڈران بھی اس نفرت کو پھیلانے میں اپنا نمایا کردار ادا کرہے ہیں جیسا کہ ٹھاکرے صاحب کا بیان آیا کہ "تبلیغی جماعت والوں کو گولی مار دینی چاہیئے” اور اس کے ذریعہ پوری قوم مسلم پہ نشانہ سادھا۔ اسی طرح بی۔جے۔پی۔ کے کئی ایک لیڈران کا بیان آیا، جسے کسی ذی نظر کی فہم وفراست ہرگز قبول نہیں کرسکتی، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ایک سفیر نے بھی اسے مذموم قرار دیا۔ جہاں ایک طرف بنگلہ دیش ولنکا جیسے ممالک جانچ کٹ بناکر اسے سستے داموں میں لوگوں کو فراہم کر رہے ہیں وہیں آج بھی ہمارے ملک میں جانچ کٹ دستیاب تو ہے مگر کم یاب، وہ بھی کافی مہنگے، علاج ومعالجہ کی بات ہی درکنار۔ اور بے چارے ڈاکٹر، ان کی بھی زندگی خطرے میں نظر آرہی ہے کیوں کہ انھیں خود کی حفاظت کے اسباب ابھی تک مہیا نہیں کرائے جاسکے۔ اور جن ڈاکٹرز نے اس کا مطالبہ کیا انھیں برخاست کرنے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ جو اس ملک کے انتظامی واقتصادی نظام کی زبوں حالی بیان کررہی ہے۔