سیاست و حالات حاضرہ

جس کی لاٹھی اس کی بھینس

تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ

جمہوری ملک میں جب تک کوئی قوم قانون ساز اداروں یعنی پارلیامنٹ واسمبلی پرقبضہ نہیں جماتی ہے، تب تک وہ اپنے بہت سے حقوق سے محروم رہتی ہے۔گرچہ ملک کے دستور میں اس کے لیے حقوق لکھے ہوتے ہیں،لیکن جمہوری ملکوں میں حقوق لڑ کر حاصل کیے جاتے ہیں۔بچہ روتا ہے،تب دودھ پاتاہے۔

اسمبلی وپارلیامنٹ میں اپنی قوت ثابت کیے بغیر کسی قوم کی پسماندگی اورمظلومیت کاختم ہونا ایک بے تعبیر خواب ہے۔اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقات کو حرکت کرنا چاہئے تھا،لیکن وہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے کسی خاص پارٹی سے منسلک رہے اورقومی مفادات کو پس پشت ڈالے رکھے۔

ہرسیاسی پارٹی بھی مسلمانوں کو ووٹ بینک بنائے رکھنے کے لیے ان کو سیاست وحکومت سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔یہ کوشش آج تک جاری ہے۔

اویسی کو بی جے پی کا ایجنٹ بتانے کا راز یہ ہےکہ مسلمان اس سے منسلک ہو کر اپنی سیاسی قوت پیدا نہ کر سکیں۔

جمہوری ملک میں تمام شہریوں کے لیے حقوق ہو تے ہیں،لیکن جد و جہد اور تگ و دو کرکے یہ حقوق حاصل کرنے ہوتے ہیں۔

اگرآپ کا حق ڈاک خانہ میں ہوتا تو پوسٹ مین آپ کا حق گھرتک پہنچا دیتا، لیکن آپ کا حق جمہوری نظام(Democratic System)میں ہے۔

ان حقوق کی حصولیابی کے لیے ہمیں پارلیامنٹ واسمبلی،عدلیہ وانتظامیہ اور دیگر محکمہ جات میں اصیل یادخیل بن کر شریک ہونا پڑے گا،تاکہ بطریق احسن آپ کے حقوق و مراعات آپ کومل سکیں۔

ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ بھارت کی مرکزی وریاستی حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہرقدم پرناانصافی کی ہے،لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گاکہ ہم نے انصاف پانے کی کتنی کوشش کی ہے؟

جمہوریت میں رواج ہے:

”جوجاگا،وہ پایا=جوسویا،وہ کھویا“۔

آزادبھارت میں مسلمان اوردلت انتہائی کمزور سمجھے جاتے ہیں۔اسی نظریہ کے سبب مسلمانوں اوردلتوں پرپے درپے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ملک میں کئی بارمسلم:دلت اتحادکاماحول بنا،پھر اس میں پیش رفت نہ ہوسکی اور رفتہ رفتہ اتحاد کاجذبہ ماندپڑتاگیا۔

قوم مسلم اقلیت کے وہم میں بھی مبتلا ہے، اسی لیے بہت سے کاموں میں وہ ہمت ہاربیٹھتی ہے، حالاں کہ تمام معاملات کا دارومدار اکثریت واقلیت پرنہیں ہے۔

بھارت کے ساڑھے تین فیصد برہمن، آرایس ایس (RSS)کے بینرتلے پورے بھارت کواپنی مٹھی میں لیے ہوئے ہیں،حالاں کہ اس کی مخالفت میں بلاتفریق مذہب و ملت بھارت کی تمام قومیں آوازیں بلندکررہی ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ برہمنوں کا ایک بڑاطبقہ حکومت کے تمام شعبہ جات میں موجود ہے،وہ لوگ حکومتی مشین پرقابض ہیں۔

عالمی سطح پرغورکریں تویہودی جو دنیا بھر میں قلیل التعداد ہیں،وہ یورپ کی مضبوط حکومتوں مثلاً امریکہ، برطانیہ،وغیرہ پرقابض ہیں، کیوں کہ اکثراعلیٰ حکومتی عہدوں پریہودی براجمان ہیں۔

برہمن اور بنی اسرئیل دونوں سازشی ذہن رکھتے ہیں،ظلم وجبر،فریب ودغا بازی بھی دونوں کی فطرت میں شامل ہے،ساتھ ہی دنیا پرستی اوردولت و حکومت کا حرص بھی دونوں کے پاس ہے۔یہودی زنار باندھتے ہیں اوربرہمن جنیو۔زناروجنیو میں کچھ فرق نہیں۔اسی طرح یہود و برہمن میں بھی زیادہ فرق نہیں۔

بھارت میں جب آرایس ایس کی سیاسی جماعت یعنی بی جے پی کی قوت کمزور تھی،اس عہدمیں آرایس ایس اپنے تر بیت یافتہ لوگوں کوملک کے کلیدی عہدوں پرقبضہ دلاتی رہی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کے اعلیٰ عہدوں پر آرایس ایس کے لوگ فائز ہیں۔

ملک کا صدر جمہوریہ،وزیراعظم،چیف کمانڈر،چیف جسٹس آف انڈیا اور دیگراعلیٰ عہدہ داران بھی آرایس ایس سے منسلک ہیں۔
ساڑھے تین فی صد برہمن ملک پر قابض ہے،اور پندرہ فی صدمسلمان مظلومیت اور محکومیت کی زندگی گزار رہا ہے۔

برہمنوں نے اپنی عقل کو استعمال کیا اورمسلمان قوم اللہ پر توکل کرتی رہی اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے غافل ہوگئی۔

صبروتوکل کے ساتھ مقصد کوپانے کے لیے جہدوکوشش کا بھی حکم ہے،نہ کہ صبروتوکل کا نام جپتے رہیں اورریشمی چادر اوڑھ کرسوتے رہیں۔

حالیہ چند سالوں سے مجلس اتحاد المسلمین مختلف ریاستوں میں اپنے امیدوار نامزد کررہی ہے۔مجلس کوسپورٹ کیا جائے اور اپنے اندر سیاسی بیداری لائی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے