تحریر: نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث: معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز، حیدرآباد
nisarqasmi24@gmail.com
0091-9393128156
اس میں شبہ نہیں کہ اس وطن عزیز کے حالات مسلمانوں کی خلاف بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں، مسلمانوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے، بعض مغربی ویورپی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی بتایا جارہا ہے کہ ملک بھارت میںکروڑوں مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے منصوبے پر عمل شروع ہوچکاہے۔ دستور کو حرف غلط کی طرح مٹا کر اس ملک کے ہندو راشٹر ہونے کا اعلان کی تیاری زور وشور پر ہے۔ سیکولر وجمہوری ملک ہونے کی علامت پارلیمنٹ کی عمارت کی جگہ نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جا چکاہے۔ یعنی اب الیکشن وغیرہ کوئی جھمیلا نہیں ، منووادی برہمن راج ہوگا، جسے مسلمانوںسے پاک کرکے یہاںکے اصل باشندوں (مول نواسی) کو غلام بنا کر رکھا جائے گا، جنہیں کوئی حقوق حاصل نہیں ہوںگے، سوائے اونچی ذات کی خدمت کرنے کے۔
ہمارے لئے اس وقت اپنے ملک پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ اندازہ ہو کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے۔ ہمارے دین کے قلعے سمجھے جانے والے دینی مدارس فی الحال بند کردیئے گئے ہیں، مسلم پرسنل لاء بورڈ معطل ہوچکا اورکومہ میں جا چکاہے۔ نہ اجلاس ہے ، نہ انتخاب،نہ کارگذاری نہ نقل وحرکت ،جماعت تبلیغ کے مرکز پر تالے لگا دیئے گئے ہیں اور اس کے امیر کو مقدمات کا سامنا ہے۔ جماعت تبلیغ کا دوسرا گروپ حالات سے خائف ہو کر خود کو کورنٹائن کئے ہواہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی مسلم تنظیمیں ، جماعتیں اور ادارے ہیں وہ سب کے سب عملی طورپر جاں بلب ہیں، ایک جمود وسکوت کی کیفیت ان پر طاری ہے۔ ایسا لگتاہے کہ سب نوشتہ تقدیر پڑھنے میں لگے ہیں، مگر بے جان وبے حس وحرکت ہو کر‘ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کہیں ہمارے یہ ادارے یادگار بن کر نہ رہ جائیں، کہ تاریخ کی کتابوں میں ان کے تذکرے آئیں، اور اگر ان کے کچھ آثار باقی رہیں تو تاریخ کے صفحات میں انہیں اس طرح حزن وملال اور حسرت ویاس کے ساتھ دیکھا اور پڑھا جائے جس طرح آج ہم اندلس واشبیلیہ اور سسلی کو یاد کرتے اور جامع قرطبہ کو دیکھ کر کف افسوس ملتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس ملک بھارت میں آج کل مسلمان مکی دور سے بھی زیادہ سخت اورکٹھن حالات سے گذر رہے ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مکہ میں مسلمانوں کیخلاف نہ حکومت تھی، نہ فوج، صرف قبائلی طاقتیں تھیں، مگریہاں تو ہمارے خلاف حکومت بھی ہے، اور فوج بھی ، حکومتی ادارے محکمے اور مشنریز بھی ہیں، اور اس حکومت کو چلانے والی اصل تنظیم کے منصوبے اور ان کی سازشیں اور ہمہ جہت سرگرمیاں بھی ۔
بلا شبہ اس ملک کے چپہ چپہ اور اس کے ہر درو ودیوار پر مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کی نشانیاں ہیں مگر بڑی تیزی سے اسے ہندو استھان بنایا جارہااور مسلمانوں کے آثار مٹائے جارہے ہیں، اس ملک کی سڑکوں ، گلیوں اور شہروں کے نام سے بدلے جارہے ہیں، جب ہماری ساری نشانیاں مٹا دی جائیں گی تو بعد نہیں کہ اسپین کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی جائے ۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا، ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کے بعد لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اللہ کی طرف بلانا اور انہیں دین اسلام کی دعوت دینا مسلم سماج کے ہر فرد پر واجب ہے، دعوت دین کا فریضہ اس قابل ہے کہ یہ ہماری آنکھوں کی نیند اڑا کر ہمارے فکر وخیال اور شعور ووجدان کو جھنجھوڑ دے۔ یہ ایسا اہم فریضہ ہے جو انسان اور سماج کوہر طرح کی ہلاکت وبربادی اور ضیاع وفقدان سے محفوظ رکھتاہے اور اگراس میںکوتاہی ولاپرواہی کی جائے تو یہی اس کے مٹنے اور وجود کے ختم ہونے کا پیش خیمہ بن جاتاہے۔ جس مسلم سماج نے بھی اس فریضہ کو نظر انداز کیا اس میں کوتاہی ولاپرواہی کی تو اس کا وجود ختم ہوگیا اور وہ تاریخ کے صفحات میں گم ہوگیا۔ اس فریضہ کی اتنی اہمیت وضرورت کے باوجود اس ملک بھارت کے مسلمانوں نے گذشتہ چند صدیوں سے اس میں بڑی کوتاہی کی اور اسے ہلکے میں لیا بلکہ اس ذمہ داری کو نبھانے سے اعراض کیا اور مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے وجود کو موہوم نہیں بلکہ حقیقی خطرہ لاحق ہوچکا ہے، گذشتہ چند صدیوںسے ہم نے یہ گمان کرلیا کہ اصل مطلوب اپنی ذات کی اصلاح اور کلمہ گو کو ہی سیدھے راستے پرلانا اور دین کی باتوںسے آگاہ کرنا ہے۔ مگر ذراہم غور کریں کہ کیا آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں احمد مجبتیٰ محمد مصطفی صلعم تک کسی نبی کی دعوت اپنوں تک ہی محدود رہی؟ کیاانہوں نے سماج کے مختلف طبقات کونظر انداز کرکے صرف اپنی برادری کی ہی اصلاح کی فکر کی؟ ہرگز نہیں بلکہ ان کی ساری جدوجہد اور ساری کدو کاوش یہی رہی کہ پوری قوم اور پورا سماج اللہ سے جڑ جائے، کوئی فرد بشر اس سے باہر نہ رہے۔ ان کی سرگرمیوں کا محور غیرمسلم اور برادران وطن ہی رہا، انہیں کو نجات دلانے کی فکر میں وہ سرگرداں رہے ،مگر اس ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی خاص طورپر بر صغیرکے اندر ہماری ترجیحات بدل گئیں،اس ملک کے اندر مسلمان اقلیت میں اور غیر مسلموں کی غالب اکثریت رہی ہے، خود اسکا تقاضہ تھا کہ وہ اقامت دین ، اشاعت اسلام اور برادران وطن تک دعوت اسلام کے پہنچانے کے عمل کو دیگر تمام دینی امور وخدمات پر ترجیح دیتے مگر ایسا نہیں ہوا،اور نہ ہورہا ہے۔ جبکہ خود اللہ نے اس کام کومقدم رکھا اور دیگر تمام اعمال پر ترجیح دیتے ہوئے اس امت کے خیر ہونے کی اسی کو اساس قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے
تو ان
کے لئے بہتر تھا، ان میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں ۔ (ال عمران:110)
ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ جس طرح پودہ اپنی بقاء کے لئے زمین سے نمک پانی اور توانائی چوستا اور حاصل کرتاہے ، پھر اس کے تنے اور شاخیں مضبوط ہوتی ہیں، اسی طرح دعوت دین کی خدمت کرنے والی جماعت کو افراد سے قوت وتوانائی ملتی ہے، اگر مسلم جماعتیں، تنظیمیں اور دینی مدارس دعوت دین کی خدمت کرنے والے افراد کار تیار کرتے رہیں جو برادران وطن تک پہنچ کر اللہ کا دین ان تک پہنچا سکیں اور لسان قوم میں انہیں دعوت پیش کرسکیں تب تو ہمارا وجود وتشخص برقرار رہے گا ورنہ ہم سوکھ کر بے جان درخت کی طرح ہوجائیںگے۔ ہم جس ملک میں رہتے اور جس سماج کاحصہ ہیں اس کا ہم پر حق ہے کہ ہم اللہ کے دین کو ان تک پہنچائیں۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
غیر مسلم اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے دعوت دین کی تبلیغ میں ہمیں رسول اللہ صلعم کی سیرت طیبہ سے روشنی حاصل کرنی چاہیے، اللہ کے نبی صلعم نے باد سموم کے جھونکوں اور مخالفتوں کے طوفان کے اندر جس ثابت قدمی اور عزم وحوصلے کا نمونہ پیش کیا ہے، وہ ہماری نگاہوں کے سامنے رہنا چاہیے ، آپ کو لالچ بھی دیا گیا اور دھمکیاں بھی دی گئیں ، دنیا کی چمک دمک اور اس کی آسائشوں سے آپ کو لبھانے کی کوششیں بھی کی گئیں ، بصورت دیگر انجام بد کی وارننگ بھی دی گئی مگر ان دنیوی باتوں کے مقابلہ پر آپ نے دوٹوک انداز میں اعلان فرمایا : اللہ کی قسم اگر وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں کہ میں اپنے اس مشن سے باز آجائوں تو میں ایسا نہیں کرسکتا، تا آنکہ یا تو اللہ اس مشن کو غالب کردے یا اس راہ میں میری جان چلی جائے ، اس کا مطلب ہے کہ برادران وطن میںدعوت دین کے وقت اپنے اصول پر کبھی سجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ، اورجو سمجھوتہ کرے گا اس سے اس کام میں لازمی طور پرکوتاہیاں ہوںگی پھر اس کا فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہوگا اور امت ناقابل تلافی چیز سے دو چار ہوجائے گی جس پر صدیوں کف افسوس ملنا پڑے گا۔
برادران وطن تک دین کی دعوت پہنچانے میں ہم سے بڑی کوتاہیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ یا تو ایمان کی کمزوری ہے یا دنیا سے محبت ولگائو ، فتنوں کا سامنا ، عزم وحوصلے کی کمی اور اصل مشن سے عدم واقفیت اور اسے محض اصلاح رسوم اور تطہیر عقائد تک محدود کرنے کا تصور ہے۔
آج برادران وطن ہم سے ایک فاصلے پر کھڑے ہیں، ہمارے اندر یہ خوف پیدا ہوگیا ہے کہ ہم اگر دین کی دعوت لے کر ان تک گئے تو اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑے گا۔ ہمیں مصائب ومشکلات سے دو چارہوناپڑے گا۔ اور بلاشبہ دعوت کا کام تو آزمائشوں اور مصائب ومشکلات سے لبریز ہوتا ہی ہے ، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا:۔
میرے پیارے بیٹے تو نماز قائم رکھنا ، بھلائی کا حکم دیتے رہنا، اور برائی سے روکتے رہنا اور اس راہ میں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرتے رہنا۔بے شک یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔(لقمان: 17)
دعوت کی راہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھری راہ ہے، اس راہ پر چلتے ہوئے داعی کو ، اس کے گھر والوں کو یا اس کے عزیز واقارب اور دوست واحباب کو بھی مصائب کا سامناکرنا پڑ سکتا اور طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں، مگر ہم اس کے پابند ہیں کہ اس کام میں کوتاہی نہ برتیں ، ہم ان مصائب وآلام اور رکاوٹوں کے سامنے ہتھیارنہ ڈالیں۔ بلکہ قدم آگے بڑھاتے رہیں بالآخر کامیابی ہمارے قدم چومے گی، اور ہمیں رب کائنات کی مدد ونصرت حاصل ہوگی۔
ہمارے درمیان کمزور ایمان والوں اور منافقین کی کمی نہیں ، وہ ہماری ہمت پست کریںگے، ہمیں اس کام میں پڑنے سے خوفزدہ کریںگے، اور دعوت سے باز رہنے کی ترغیب بھی دیںگے ، کہ اسی میں ہماری سلامتی ہے مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلعم مکہ میں مشرکین کے بیچ گھرے تھے ، مدینہ اور اس سے باہر یہود ونصاری اورمنافقین کا جھرمٹ تھا مگر آپ صلعم ان سے متاثر ہونے والے نہیں بلکہ ان پر اثر انداز ہونے والے تھے، آج ہم دنیا کی لذتوں اور خواہشات میں گھرے ہیں، اور جب دنیا کی محبت دل میں پیوست ہوجاتی ہے تو دعوت کا عمل دشوارہوجاتاہے، دنیا کی محبت کے ساتھ انسان دعوت کی ذمہ داری نبھانے اور اس کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں رہتا ہے۔ آج ہم دنیوی مشاغل میں غرق ہیں، کاروبار سے فرصت نہیں ، اہل وعیال کی محبت نے ہمیں بزدل بنا دیا، اور ہم دعوت دین سے یکسر منہ موڑ چکے ہیں، ہمارا نفس راحت وآرام اور عیش وعشرت کا خوگر ہوچکا ہے، ہم محنت ومشقت برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے کیونکہ آخرت کی جواب دہی کا ہمارے اندراحساس نہیں اور اپنے دین ومذہب اور اس کے ماننے والوں کے مستقبل سے ہم بے فکر ہوچکے ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ چند روزہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور ہمارے خالق ومالک اور پروردگار نے ہمیں دنیا سے حد سے زیادہ لو لگانے اور اسی کا ہو کر رہنے سے منع کیا اور فرمایا ہے کہ یہ تو محض متاع اور لطف اندوز ہونے کا سامان ہے۔ جبکہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جگہ اور داربقاء ہے۔ اس لئے عقل مند وہ ہے جو اطاعت وبندگی ،عمل صالح اور صبر کا توشہ تیارکرے، اور دعوت دین کی مشقت بھری راہوں میں جو مشکلات اور پریشانیاں پیش آئیں اس پرصبرکریں۔
ہمیںیہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخرالزماں صلعم تک جتنے انبیاء ورسل اس دنیامیں تشریف لائے انہوں نے اللہ کی باغی قوموں اور غیر مسلم سماج کو اللہ کی طرف لانے کاکام اور اللہ کا پیغام ان تک پہنچانے کا عمل تنہا شروع کیا ، خود ہ
مارے آقا ا
حمد مجبتیٰ محمد مصطفی صلعم نے جزیرئہ عرب میں اس کام کو تنہا شروع کیا، اور صرف 23 سال کے مختصر عرصہ میں آپ صلعم کے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی ، یعنی آپ صلعم کی محنت سے سالانہ 5695 افراد کے تناسب سے لوگ اس دین میں داخل ہوئے ، اب ذرا ہم اپنے اوپر غور کریں ہم اسی نبی صلعم کے ماننے والے اور پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، ہمیں آپسے عشق ومحبت کا بھی دعویٰ ہے مگر ذرا سوچیں کہ ہم نے کتنے بت پرستوں کو دین حنیف کی دعوت دی؟ کتنے مشرکوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا ؟ کتنے دیوی دیوتائوں سے لو لگانے والوں کو وحدانیت کا درس دیا؟ اور کتنے لوگوں نے ہماری بات مانی اور کتنوںنے ہماری باتوں کو ٹھکرایا؟ یقیناجواب یہی ہوگا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا، تو ان کی بت پرستی اور دیوی دیوتائوں کے سامنے سر ٹیکنے اور ہمارے خلاف زہرافشانی کرنے میں غلطی ان کی نہیں ہماری ہے، کہ ہمیں جو کام کرنا تھا ہم نے کیا ہی نہیں، جوذمہ داری ہمارے سپرد کی گئی تھی ہم نے سرے سے اسے نبھایا ہی نہیں، تو وہ اگر ہمارے وجود کو مٹانے کے درپے ہیں، تو اس میں قصور ان کا کم اور ہمارا زیادہ ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں تک دعوت دین نہ پہنچانے پر سخت سزا کی وعید سنائی اور اپنی ناراضگی کا اعلان فرمایا ہے۔ اللہ کے نبی صلعم معصوم ہیں مگر آپ کے بارے میںکہاجارہا ہے کہ وہ بھی اگر بالفرض اللہ کے پیغام کو دیگراقوام واہل مذاہب تک نہ پہنچائیں تو وہ ماخوذ ہوں گے تو دوسروں کے بارے میں کیا کہا جاسکتاہے، ارشادباری تعالیٰ ہے۔
کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے نہیں بچا سکتا اور میں ہر گز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پاسکتا، البتہ میرا کام اللہ کی بات اور اس کے پیغامات لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔ (اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے ۔(الجن:22۔23)
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یا تو تم نیکی کا حکم دیتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب اور اپنی سزا مسلط کردے، پھرتم دعاء کرو تو تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔ (ترمذی)
ہائے افسوس ! آج مسلمان تو خواب غفلت میں پڑے ہیں، اور سر پر تلوار لٹکنے کے بعد بھی بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، مگر اہل باطل رات ودن پوری تندہی کے ساتھ ہمارے خلاف تدبیریں کررہے اور ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنچانے میں لگے ہوتااور اپنے شر وفساد پر پوری توانائی صرف کررہے ہیں اور مسلمان تن آسانی میں پڑے اور پائوں کے نیچے سے زمین کھسکنے کاانتظار کررہے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
بے شک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو خرچ اس لئے کررہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں ، سویہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیںگے پھر وہمال کافر ان کے حق میں باعث حسرت ہوجائیںگے پھر مغلوب ہوجائیںگے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا۔ (الانفال: 36)
ہمیںیاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا وجود اسی وقت تک محفوظ ہے جب تک کہ ہم اپنے ہم وطنوں میں دعوت دین کی خدمت انجام دیتے رہیں، ہم نے اگر ا سے نظر انداز کردیا تو ہمارے رہنے یا نہ رہنے سے اللہ کو کوئی سروکار نہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کردے جبکہ وہاں کے لوگ اصلاح کرنے والے ہوں۔ (ھود:117)
ترک دعوت کی وجہ سے ہم اللہ کی رحمت سے محروم ہوجاتے پھر اللہ کا غضب ہم پرنازل ہونا یقینی ہوجاتاہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
بنی اسرائیل کے کافروں پر دائود اور عیسی بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی ، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ، آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہیں تھے ، جو کچھ یہ کرتے تھے یقینابہت برا تھا۔ (المائدہ : 7879)
ایک جگہ ارشاد ہے۔
اور اگر تم روگردانی کروگے تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور لوگوں کو لے آئے گا جو پھر تم جیسے نہیں ہوںگے۔(محمد:38)
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کے اندر ابتدائی زمانہ میں تو غیر مسلموں میں دعوت کا کام پوری قوت سے مسلم حکمرانوں کی سرپرستی میں مسلم تاجروں ، صوفیاء کرام اور علماء ربانیین کے ذریعہ انجام دیئے گئے مگر اس کے بعد یہ خیال کرتے ہوئے غیر کہ مسلم اہل وطن کے عادات واطوار ، رسم ورواج اور عقائد وخیالات مسلمانوں میں در آرہے ہیں دعوت کا رخ غیر مسلموں سے موڑ کر خود آبائی مسلمانوں کی اصلاح کی طرف سے موڑ دیا گیا اوراس کے بعد سے آج تک یہی ہوتا رہا اور برادران وطن میں دعوتی کام کا زمانہ دوبارہ واپس نہ آسکا۔ کفر وشرک کے غلغلہ اور دیوی دیوتائوں کے سامنے سر ٹیکتے دیکھنے کے باوجود ہمارے اندر جنبش پیدا نہیں ہوئی، اور نہ ہماری پیشانی پر شکن آیا جبکہ ہمیں اس سے مضطرب ہونا چاہیے تھا اور ان کی نجات کی فکر کرنی چاہیے تھی، جیسا کہ انبیاء کرام کا وطیرہ تھا اور خود نبی آخر الزماں صلعم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ان کے ایمان نہ لانے پرشاید آپ تو اپنی جان کھودیںگے۔(الشعراء:3)
ایک جگہ فرمایا:
پس یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیھچے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیںگے۔(الکھف: 6)
اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا وجود اس ملک میں باقی رہے تو ہمیں اس چھوٹے ہوئے دعوتی کام کو شروع کرنا ہوگا، مدارس کے اندر قوم کی زبان میںداعیان دین وافراد کار تیار کرنے ہوںگے اور روایتی تعلیم پ
ر اکتفا کرنے کے بج
ائے ملک کے مذاہب کی آگہی حاصل کرکے ان میں اس مشن کو زندہ کرنا ہوگا۔ اور مستقبل کیلئے پختہ وپائیدار لائحہ عمل ومنصوبہ تیار کرنا ہوگا۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں