سی۔ اے۔ بی۔ کو سی۔ اے۔ اے۔ قانون بنے ایک سال ہوگیا ہے۔ 9 دسمبر 2019 کو لوک سبھا نے جب اس بل کو پاس کیا تو دل پر مایوسی چھاگئی لیکن پھر یہ سوچ کر تھوڑی امید جگی کہ اسے ابھی ایکٹنگ کمیٹی اورپھرراجیہ سبھا سے گزرنا ہے، اور وہاں سے اس کا پاس ہونا ممکن نہیں۔ مگر کسے معلوم تھا کہ اگلے دن (10 دسمبر 2019کو) یہ بل بائی پاس ہوتے ہوئے سیدھے راجیہ سبھا پہونچ کر ہنگامے کے بیچ پاس ہوجائے گا۔
10 دسمبر کی تاریک شام کو سخت ہنگامے میں راجیہ سبھا کے اندر جیسے ہی یہ بل پاس ہوا، اس کے کچھ ہی دیر بعد جامعہ ہاسٹل سے طلبہ کی ایک جماعت اس کی مخالفت میں نکل پڑی۔ 4 نمبر گیٹ سے ہوتے ہوئے جامعہ یو۔ پی۔ ایس۔ سی۔ کوچنگ کے پاس گرلس ہاسٹل تک مارچ کیا۔اس وقت رات کے تقریبا 9 بجے ہوں گے۔ اگلی صبح دن میں بظاہر معاملہ شانت رہا، اور ایسا لگا کہ اب اس آگے کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ 2014 سے ابھی تک جامعہ کے طلبہ کو جے۔ این۔ یو۔ کے طلبہ کی طرح احتجاج کرتے نہیں دیکھا تھا، سورج غروب ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی، لوگ عشاء کی نماز سے بھی فارغ ہوگئے تھے، اس بل سے جڑی خبریں دیکھنے اور کھانا کھانے کے چکر میں میری عشاء کی نماز فوت ہوگئی تھی ، اسی لئےخاموش سیدھا ایس۔ آر۔ کے۔ مسجد کی طرف جارہا تھا کہ اچانک میر آگے سے لڑکیوں کے نعرے کی آواز آئی، مسجد کے قریب پہونچا تو دیکھا کہ گرلس ہاسٹل سے لڑکیوں کا ایک جتھا آرہا تھا، جس میں اس بل کے خلاف کافی ناراضگی تھی،وہ سیدھا سات نمبر گیٹ پر آکر رکا، میں نے جلدی سے نماز پڑھی اور موقع پر پہونچا۔ اس وقت تک لائبریری سے نکل کر لڑکوں کی بھی اچھی خاصی تعداد اکٹھا ہوگئی تھی، لیکن کمان لڑکیوں کے ہاتھ میں تھی۔نعرے بازی ہوہی رہی تھی کہ یکا یک موسلادھار بارش شروع ہوگئی، میں بھاگ کر سیدھا ریڈنگ ہال پہونچا، لڑکے بھی تقریباً واپس ہوگئے، لیکن لڑکیاں وہیں بارش میں جم کر نعرے بازی کرتی رہیں، اور واپس ہاسٹل کب گئیں اس کا مجھے علم نہیں۔12 تاریخ کو مائک و دفلی کے ساتھ طلبہ بیٹھ گئے، یہی وہ تاریخ ہے جب صدر جمہوریہ نے اپنی دستخط کے ذریعے اس بل کو ایکٹ یعنی قانون میں بدل دیا۔ یہ خبر سنتے ہی طلبہ کی بے چینی بڑھ گئی، جے۔ این۔ یو۔ کے طلبہ بھی میدان میں آگئے، اور اگلے دن یعنی 13 تاریخ کو جمعہ بعد شام 3 بجے جامعہ میٹرو سے سانسد بھون تک مارچ کا اعلان کیا گیا، اور عوام سے بھی شرکت کی درخواست کی گئی، طلبہ کی حوصلہ افزائی اور کالے قانون کی مخالفت میں جامعہ ٹیچرس ایسوسیشن نے بھی جمعہ بعد گیٹ نمبر7 پر احتجاج کیا۔سانسد مارچ جامعہ میٹرو سے چل کر ہولی فیملی ہاسپٹل پر روک دیا گیا۔ جس کے سبب پولیس اور عوام کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور کئی لوگ زخمی ہوگئے۔ معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہو جامعہ ٹیچرس ایسوسیشن کے منچ سے اعلان ہوا کہ سانسد مارچ کو ختم کر کے جامعہ کے بچے جامعہ کے احاطہ میں آجائیں تاکہ حالات پر قابو پایا جاسکے۔
چنانچہ طلبہ جامعہ اندر آئے اور دھرنے پر بیٹھ گئے، اور ایک منظم پرامن احتجاج شروع کیا۔ جس کا کوئی ایک رہنما نہیں تھا، جسے دیکھ کر جامعہ المنائی (Alumnae)نے کسی ایک طالب علم کی قیادت میں احتجاج کا مشورہ دیا، پورا دن بنا کسی قائد کے زبردست مظاہرہ ہوا۔شام میں طلبہ المنائی کو اپنا قائد ماننے پر راضی ہوگئے۔لیکن اگلے دن یعنی 15 تاریخ کو المنائی کے دماغ میں کیا چلا کہ اس نے مظاہرے میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور طلبہ کے سامنے یہ رائے رکھی کہ مظاہرہ آج ختم کردیا جائے، دو تین دن بعد اسے نئے سرے سے اور مضبوطی کے ساتھ شروع کیا جائے گا۔ جس کو ماننے سے اکثریت نے منع کردیا۔ یہ اتوار کا دن تھا اور دوبارہ سانسد مارچ کا اعلان تھا، چنانچہ اس دن بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا، جامعہ سے سرائے جولینا تک روڈ بھرا تھا اور دوسری طرف آشرم کا ہائی وے بھی عوام کے غصہ بھرے نعروں سے گونج رہا تھا۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے عصر بعد این۔ سی۔ سی۔ آفس کے سامنے والے میدان میں المنائی نے کچھ طلبہ سے میٹنگ کی، ابھی یہ میٹنگ کسی نتیجہ پر نہیں پہونچی تھی کہ پولیس کی گولی کی آواز آنے لگی، پھر آنسو گیس کے گولوں کا دور چلا، دیکھتے ہی دیکھتے جامعہ آنسو گیس سے بھر گیا اور اس کے چاروں طرف فوج کی چھاؤنی لگ گئی، زندگی میں پہلی بار آنسو گیس سے سابقہ پڑا، دماغ کام نہیں کر رہا تھا کہ کیا کروں، تبھی دیکھا کہ بچے نمک کی پیکٹ لئے دوڑ رہے ہیں کہ اسے چہرے پر لگاؤ راحت ملے گی، میں نے بھی نمک لگانے کی کوشش کی لیکن اس کی تیزی برداشت نہ ہوئی اس لئے رومال سے چہرے کو ڈھکا تب جاکے کچھ آرام ملا، مغرب کا وقت ہوگیا تھا، میں نے سوچا کہ اب یہاں رکنا مناسب نہیں، اس لئے نماز پڑھ کر روم چلوں، لیکن تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا تھا، جامعہ کی جامعہ مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد جیسے ہی میں روم کی طرف بڑھا تو معلوم ہوا کہ غفور نگر کی طرف سے بھی پولیس نے گھیر لیا ہے۔ میں نے سوچا اب کیمپس سے بہتر کوئی جگہ نہیں کیونکہ اس کے اندر پولیس داخل نہیں ہوسکتی ہے، اس لئے دوبارہ ریڈنگ ہال میں چلا گیا، لیکن گیس نے وہاں بھی نہیں رہنے دیا، باہر نکلا تو معلوم ہواکہ یونیورسٹی پالیٹیکنک کی طرف سے پولیس اندر آگئی ہے۔ جب تک کوئی نئی تدبیر کرتا پولیس اورسنگھ پریوار کے لوگوں نے بری بری گالیوں کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ شروع کردیا۔ اور مجھے لقمہ اجل بنانا چاہا، مگر میرے رب نے میری حفاظت کی اور کاری ضرب کے باوجود ان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب رہا۔
تقریباً دو گھنٹے کی بربریت میں پولیس نے جامعہ کی مرکزی لائبریری اور دو ریڈنگ ہال کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ بچوں پر کیا گیا ظلم بیان سے باہر ہے۔ مسجد کے امام اور جامعہ کے حفاظتی عملہ کو بھی مارا،اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بربریت کے نشے میں چور گرلس ہاسٹل میں بھی داخل ہوگئے، لیکن جانے پھر کیا سوچ واپس آگئے۔ اگلی صبح جامعہ وی۔ سی۔ نے پہلے سخت لفظوں میں اس درندگی کی مذمت کی اور سرکار سے انصاف کی مانگ کی، لیکن بعد میں اوپری دباؤ نے انہیں خاموش رہنے پر مجبور کیا۔ جامعہ المنائی اور جامعہ ٹیچرس ایسوسیشن نے اس ظلم کے خلاف ایف۔ آئی۔ آر درج کرانے کی بڑی کوشش کی لیکن ایف۔ آئی۔ آر درج نہیں ہوا۔ الٹا طلبہ کو مجرم بتا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ جنہیں ابھی تک ضمانت نہیں ملی ہے۔ لوگ ان کے لئے انصاف کی مانگ کر رہے ہیں لیکن حکومت کان میں تیل ڈال کر سوگئی ہے۔ عدالت بھی کوئی مضبوط اور غیر جانبدارانہ قدم نہیں اٹھا پارہی ہے۔ اندھ بھکتی نے تمام اعلیٰ عہدے داروں کو گونگا و بہرا بنا دیا ہے۔
16 دسمبر کی صبح سخت سردی اور کہرے کے بیچ ایک ہمدرد اور غمگسار طالب علم اپنے کپڑے اتار گیٹ نمبر 7 پر انصاف کی مانگ کے لئے، دھرنے پر بیٹھ گیا، جسے دیکھ بچوں اور جامعہ نگر کے باشندوں کی غیرت جوش میں آئی اور وہ سبھی اپنی خواب گاہ سے نکل کر گیٹ پر جمع ہوگئے اور محمد علی جوہر مارگ کو روک کر سڑک پر بیٹھ گئے، اور سرکار سے این۔ آر۔ سی۔ و سی۔ اے۔ اے۔ جیسے قانون کی منسوخی کے ساتھ طلبہ کے انصاف کی مانگ کی۔ جامعہ سے ہمدردی اور انسانیت کی خاطر شاہین باغ کے لوگوں نے اپنے ہائی وے کو بند کیا، تاکہ سرکار جلد از جلد بچوں کے انصاف کے ساتھ کالے قانون کو واپس کرے۔ لیکن کوئی کیا کرے سرکار ٹھہری بہری، جس کے نتیجہ میں دھیرے دھیرے پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا۔ سب کی آواز ایک تھی وہ یہ کالا قانون واپس ہو اور جامعہ طلبہ کو انصاف ملے۔ لیکن بہری سرکار کو کچھ سنائی نہ دیا، وہ اپنے تانا شاہی ترکیب میں لگی رہی، اور لوگوں کو مدے سے ہٹانے کے لئے 5 جنوری 2020 کی شام اس نے اپنے کچھ پالتو اور عقل سے پیدل سنگھی ظالموں کو جے۔ این۔ یو۔ کے کیمپس میں اتار دیا، جنہوں نے کھلے عام گنڈا گردی کی اور طلبہ پر جان لیوا حملے کئے۔ یہاں بھی سرکار نے ظالموں کی پشت پناہی کرکے زخمیوں کو مجرم بنا دیا۔
اس واقعہ کے بعد عوام کا غصہ اور بڑھ گیا اور ابھی تک جو لوگ چپ تھے انہوں نے بھی لب کشائی کی ۔ اسی بیچ دلی الیکشن کا پرچار شروع ہوا، جس میں سرکار نے شاہین باغ کو اپنا چناوی مدا بنایا اور ملک بھر میں ہو رہے احتجاج کو اس سے جوڑ کر ہندو-مسلم کا رنگ دے دیا۔ ریلیوں میں کھل کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلایا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ، جس تاریخ کو ساورکر نے مہاتما گاندھی کو گولی ماری تھی اسی تاریخ (30 جنوری 2020) کو اسی کے نام سے ملتے جلتے ایک نوجوان نے پولیس کی موجودگی میں سرعام بندوق لہرایا اور پھر طلبہ پر گولی چلاکر قانون کی مخالفت کی، لیکن یہاں بھی سرکار نے اس گوڈسے کی اولاد پر دست شفقت رکھا اور نابالغ بتاکر آزاد کردیا۔ نتیجتاً دو دن بعد شاہین باغ میں بھی ایک نوجوان نے گولی چلائی جسے سرکاری حمایت حاصل ہوئی۔
ان پے در پے آتنکی حملوں پر سرکار و عدالت کی چپی نے اندھ بھکتوں کو جری بنادیا بی۔ جے۔ پی۔ نیتا کھل کر آتنک کی دھمکی دینے لگے۔ کپل مشرا نے پولیس کی موجودگی میں دنگے کی دھمکی دی اور اسی کے نتیجے میں 23 سے29 فروری تک، عین اس وقت جب امریکی صدر ٹرمپ اپنے دورے پر دہلی آئے ہوئے تھے، شمال مشرقی دلی آگ و خون میں نہاتا رہا۔ یہاں بھی سرکار نے وہی کام کیا جو ابھی تک کرتی چلی آرہی تھی، اور جامعہ کے طلبہ کے ساتھ "عآپ” کے نیتا طاہر حسین کو اس دنگے کا ذمہ دار بتا کر جیل میں ڈال دیا۔ آج بھی وہ لوگ سزا کاٹ رہے ہیں لیکن سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔
کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ابھی تک سرکار دیش کو بیچ اور عوام کا خون چوس رہی ہے۔ پندرہ دن سےکسان دلی سرحد پر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا ہے اور سرکار الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔ اس لئے بھینس کے آگے بین بجانے سے بہتر ہی کہ اپنی کمزوری کو دور کرتے ہوئے، طاقت کا بہتر استعمال کریں۔ تبھی مسئلے کا کچھ حل نکل سکتا ہے۔
تحریر: شکیل الرحمٰن مئوی
ریسرچ اسکالر ، جامعہ ملیہ اسلامیہ
Shakeelmau7@gmail.com