اولیا و صوفیا

حضرت سید شاہ علی محمد المعروف شاہ علی جیوگاؤں دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ

ازقلم : سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی
خانقاہ رفاعیہ ، بڑودہ ، گجرات
9978344822

حضرت سید شاہ علی محمد المعروف شاہ علی جیوگاؤں دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ رفاعیہ کے فرد فرید ، عالم ارواح طیبہ کی روح سعید ، رفاعی گھرانے کے چشم و چراغ اور اہل گجرات کی آبرو تھے ، آپ اولیاے گجرات میں انفرادی مقام کے حامل ، صاحب کتب ، اردو ادب کے بے مثل شاعر ، صاحب دیوان ، صاحب کثرت کرامات ، شرافت نسب کا عالم یہ کہ آپ نجیب الطرفین شریف السلسلتین سے ہیں اور ان میں بھی امتیاز یہ کہ والد محترم کی طرف سے سیدی سلطان الصالحین محی الملت و دین سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ اور والدہ معظمہ کی طرف سے سیدنا و شیخنا محبوب سبحانی سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے سلسلہ نسب مل جاتا ہے ۔
آپ خاندانے عالی کے ایسے نورانی و روشن چراغ تھے جس کی ضیا پاشیوں سے گجرات کے تیرہ و تار راستے ، محلات و محراب ، کوچہ و بازار ایسے منور و تابناک ہوگئے کہ جہل و بطل کی انکھیں چندھیا گئیں ۔ آپ کے جد حضرت سید شاہ سلطان نجیب الدین عبدالرحیم محبوب اللہ رفاعی احمدآبادی رحمتہ اللہ علیہ( متولد : 689 ھ / متوفی : 813 ھ ) جو سیدی امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے شجر طاہر کی سترھویں شاخ سرسبز اور بانی سلسلہ رفاعیہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے اس ارض ہند پر قدم رنجہ فرمانے والے خانوادہ رفاعیہ کے پہلے بزرگ ہیں ، جنہوں نے اس ملک کو اپنا وطن ثانی اور خطّہ مالوف بنالیا اور گجرات کو سکونت اور اشاعت دین کے لیے پسند فرمایا ۔
آپ اپنے جد حضرت سلطان سید شاہ نجیب الدین عبدالرحیم محبوب اللہ رفاعی احمدآبادی رحمتہ اللہ علیہ کی دعا پیشن گوئی اور روشن بشارت تھے ۔
ہمیشہ خداے لم یزل کی حمد و ثنا ، ہر لمحہ باعث تخلیق کائنات کی محبت ، مدحت اور تصور میں غرق رہنے والے اس عارف الوجود و بابرکت نمود کو سلطنت خداداد گجرات کے شہر احمدآباد میں شاہ علی جیو ، شاہ علی محمد ، سید علی ، علی جی ، علی جیو ، علی جیوگاؤ دھنی ، شاہ علی گجراتی ، شاہ علی احمدآبادی کے نام سے جانے و پہچانے جاتے تھے ۔
خواص و عوام میں آپ سید علی محمد سے مشہور تھے ۔ آپ کے نام کے ساتھ گاؤ دھنی یا گام دھنی بعد کا اضافہ ہے ، پروفیسر نجیب اشرف ندوی لکھتے ہیں :

شاہ صاحب اپنے عہد کے بڑے خدا رسیدہ بزرگ سمجھے جاتے تھے ۔ اور عام خیال تھا کہ وہ جس کو جو کچھ چاہتے ہیں دے دیتے ہیں اسی وجہ سے ان کا لقب گاؤ دھنی ( مالک المک ) تھا ۔ ( علی گڑھ تاریخ ادب اردو ، ص : 108 )
لیکن احمدآباد میں عوام کی زبانی یہ روایت مشہور ہے کہ آپ کو سب سے پہلے لقب ” گاؤدھنی ” سے ملقب کرنے والے آپ کے دادا سید عمر رفاعی رحمتہ اللہ ہیں ۔ یہ لقب دادا نے آپ کی پیدائش کے بعد آپ کا چہرا دیکھ کر فرمایا تھا ۔ یہ لقب اس قدر مقبول ہوا کہ نام کا جزو ہی بن گیا ۔ آپ کے روضہ مبارک کے کتبے پر ” گام دھنی ” تحریر ہے ۔ کثرت استعمال کی وجہ سے یہ زبان زد عام ہوکر ” گاؤدھنی ” سے ” گام دھنی ” ہوگیا ۔ لوگ آج بھی احمدآباد میں آپ کو ” شاہ علی جی گام دھنی ” ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔

آپ کی ولادت :
آپ کے پیدا ہونے سے تقریباً 150 /ڈیڑھ سوسال قبل آپ کے جداعلی حضرت سید شاہ سلطان نجیب الدین عبدالرحیم محبوب اللہ رفاعی رحمتہ اللہ علیہ نے ولادت کی بشارت دے دی ، آپ نویں صدی ہجری کے آخری دہے 899 ھ مطابق 1491 ء میں بزم آراے عالم وجود ہوے ۔ اس وقت سلطنت دہلی پر سلطان سکندر لودھی حکمراں تھا ۔
آپ کی وفات : 77 سالہ عمر شریف میں بتاریخ 14 جمادی الاول 973 ھ مطابق 17 ، دسمبر 1565 ء میں ہوا ۔
تذکروں اور تاریخ ادب اردو میں آپ کے وصال کی تاریخ و سن میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے ۔
آپ کی درگاہ کی چوکھٹ پر تحریر کندہ ہے : 17 ، صفر المظفر 970 ھ ، اور احمدآباد میں مدفن ہوے ، آپ کا مزار مبارک جمال پور احمدآباد ، گجرات میں زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔
جبین آستانہ چوکھٹ پر جو تاریخ وصال درج ہے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کسی انگریز افسر نے اسے کندہ کروا کر لگوایا تھا ، اسی تاریخ کو آپ کا عرس مبارک ہر سال خانقاہ رفاعیہ ، درگاہ حضرت سید شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی ، احمدآباد میں 17 صفر المظفر کو منایا جاتا ہے ۔ معتبر روایات اور بالخصوص ڈاکٹر محمد سراج الحسن صاحب جن کا تحقیقی مقالہ ” جواہر اسراراللہ کی تنقیدی تدوین ” نہ صرف یہ ایک مقالہ ہے بلکہ انداز ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نذرانہ عقیدت ہے جو کہ ایک مخلص عقیدت مند کی طرف سے بربارگاہ حضرت سید شاہ علی جیوگاؤں دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ میں پیش کیا گیا ، اس مقالہ کی تنقیدی و تحقیقی روایات سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا وصال 14 ، جمادی الاول 973 ھ ہی کو ہوا ۔
حضرت سید شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی ، حضرت شاہ محمد غوث گوالیری اور رسالہ معراجیہ
حضرت سید شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی قدس سرہ عوام کے قلوب اور ان کی تسکین کا مرکز بنے گجرات کے وسیع تر خطے کے نگراں و محافظ تھے ۔ آپ کے خطے میں جو بھی پہنچ جاتا وہ ہر طرح سے محفوظ و مامون ہوجاتا ۔ آپ نے ذریعہ اظہار کے لیے عوام ہی کی مقبول ترین زبان کو اپنایا اور اپنے پیام کو عام کرنے میں اس سے خوب مدد لی ۔ ڈاکٹر سید محمد حسین لکھتے ہیں :
"شاہ علی جیو کا عہد وہ عہد ہے جب گجرات میں تہذیبی سطح پر انقلاب انگیز تبدیلیاں رونما ہورہی تھی ، مقامی رنگ و بو میں فارسی زبان و ادب کا رنگ شامل ہورہا تھا ۔ ( اردو میں عشقیہ شاعری ، ص : 124 )
شیر شاہ سوری کے طرز عمل سے دل برداشتہ ہوکر حضرت شاہ محمد غوث گوالیری رحمتہ اللہ علیہ گجرات پہنچے توان کی آمد پر علماے گجرات نے مسرت کا اظہار کیا ۔ مشائخین نے آپ کے مقام و مرتبہ کو پہچانا اور معانی کے خواستگار ہوے ، چند حضرات علماء نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ تصنیف و تالیف میں بھی درک رکھتے تھے ، کچھ دنوں بعد آپ نے ایک رسالہ بنام ” معراجیہ ” تصنیف کرڈالا ۔ کتاب علماء کے سامنے پیش ہوئی جسے پڑھ کر سبھوں نے اس میں بیان کردہ بعض باتوں سے سخت اختلاف کیا اور آپ سے اس بارے میں استفسار کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تصنیف میری حقیقت حال کا بیان ہے کہ ” مجھے معراج ہوئی ” علماء نے جب یہ سنا تو برہم ہوے اور توبہ کرنے پر اصرار کیا ، شاہ صاحب برابر کہتے رہے اور اصرار کرتے رہے کہ ” مجھے معراج ہوئی ” ۔
تذکروں میں ہے کہ ” رسالہ معراجیہ ” اور معراج کے واقعہ کا اظہار حضرت سید شاہ علی محمد جیوگاؤ دھنی رفاعی قدس سرہ سے ملاقات کا نتیجہ تھا ۔ امام الدین گلشن آبادی کا بیان ہے :
ایک روز محمد غوث گوالیری رحمتہ اللہ علیہ نے گجرات کے تمام مشائخین کو دعوت دی عزت و شان سے مجلس کو آراستہ کیا اور فرمایا کہ ” گجرات رات ہے میں اس کو دن بنانا چاہتا ہوں ” ، گجرات کے تمام مشائخین دعوت میں شریک ہوے مگر شیخ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی شریک نہیں ہوے اور دعوت قبول نہیں کی ، شیخ کا خادم دعوت دینے گیا تھا اور آپسے کہا کہ میرے مرشد مالک نے فرمایا کہ ” گجرات رات ہے میں دن بنانا چاہتا ہوں ” ، شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی نے خادم کا قول سن کر فرمایا : ” جو رات ہے وہ واقعی میں رات ہے اس کے کہنے سے دن نہیں ہوگا ” ۔ خادم محمد غوث کے پاس گیا اور آپ کی تقریر بیان کی محمد غوث خود ہی شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی کے مکان پر آے آپ کے مکان کی سات سیڑھیاں تھیں ۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو معلوم ہوا کہ پہلے آسمان پر رکھا ، جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو دوسرے آسمان پر قدم رکھا اسی طرح ساتویں سیڑھی پر جب محمد غوث نے قدم رکھا تو ساتویں آسمان پر قدم رکھا ۔ جب اندرون مکان پہنچے عرش اعظم پر تھے ۔ جب شاہ علی جیو رفاعی سے ملاقات کی خدا سے ملاقات کی ۔ ایسا انھیں معلوم ہوا ۔ غرض بعد اسرار و نکات کے وہاں سے مکان پر آپہنچے اور مشائخین کی مجلس سے کہا کہ آج مجھ کو معراج نصیب ہوئی ۔ مشائخ نے سوال کیا کہاں اور کس طرح ، شیخ نے کہا شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی کے مکان پر ۔ گجرات کے علماء و مشائخ نے بادشاہ کو مطلع کرکے شیخ کے قتل کا فتوی تیار کیا ۔ علماء و مشائخ کی مواہیر سے مثبت ہوا ۔ فقط مولانا شاہ وجیہ الدین علوی رحمتہ اللہ علیہ نے فتوی پر مہر نہیں کی ۔ اور آپ کے پاس آے اور عرض کیا حضرت میرے مرشد ناحق قتل ہوتے ہیں ، آپ بچا لیجئے ۔ آپ نے رومال دیا کہ اس کو محمد غوث کے چہرہ پر پھرا کے مجلس میں معراج کی کیفیت دریافت کیجئے ، مولانا رومال لے کے مرشد کی خدمت میں آے ، شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی کے حکم کی تعمیل کرکے مرشد سے دریافت کیا ، مرشد نے معراج کی کیفیت خواب کی طرح بیان کی ، مولانا علماء کی مجلس میں پہنچے ، علماء نے مہر کرنے کا تقاضا کیا ، شیخ نے خواب کا واقعہ بیان کیا علماء خاموش ہوے اور قتل کرانے سے باز رہے ۔ فتوی آپ کی توجہ باطن سے منسوخ ہوا اور شیخ کی جان محفوظ رہی ۔
عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری نے لکھا ہے :
شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی کی شان و عظمت تمام علماء و مشائخ میں بڑی ہوئی تھی ۔ سب آپ کی کرامت و ولایت کے معترف تھے ۔ آپ اکمل الاولیاء و افضل المشائخ تھے ، آپ کے آفتاب جمال کے مقابلہ میں کسی کا چراغ روشن نہیں ہوسکتا تھا ، آپ آسمان ولایت کے آفتاب تھے اور دوسرے بزرگ ستارے تھے ۔
( تاریخ الاولیاء ، ص : 575 / محبوب ذی المنن تذکرہ اولیاے دکن جلد سوم از محبوب التواریخ ، ص: 493 ، 494 )
یہ حضرت سید شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کی خصوصی توجہ کا نتیجہ تھا کہ حضرت شاہ محمد غوث گوالیری رحمتہ اللہ علیہ کو سبعہ سمٰوات و سبعہ سیارگان کی تسخیر کا علم تھا اور وہ علم و فضل کے باعث خودکو ممتاز و فردفرید جانتے تھے اس لیے حضرت شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ نے انھیں ان کے مقام سے واقف کرادیا کہ جتنا وہ جانتے ہیں ” کسب ہے ” فضل نہیں ۔ آپ نے اپنی توجہ باطنی سے شاہ محمد غوث گوالیری رحمتہ اللہ علیہ کو شان الہی کا جلوہ دکھایا تھا ۔ یہ آپ کی ذات قدسی صفت کا اک اشارہ تھا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی قدس سرہ کی ذات کمالات الہیہ کا مرجع و منبع تھی اور علم و فضل کا بحر ناپیداکنار ۔
مولوی عبدالحق نے تذکرہ اولیاے دکن کے حوالے سے لکھا ہے :
” محمد غوث گوالیری رحمتہ اللہ علیہ گوالیر سے گجرات آے تو آپ سے ملے اور آپ کے کمال کو تسلیم کیا ” ۔
اس واقعہ کے بعد حضرت شاہ محمد غوث گوالیری رحمتہ اللہ علیہ جب مجلس علما میں تشریف لاے تو دعویٰ کیا کہ انھیں آج معراج ہوئی ہے اور پھر ایک رسالہ ” معراجیہ ” قلمبند کردیا جو اسی عالم وجد و کیف کی صداے بازگشت تھا ۔
اس واقعہ کے بعد حضرت غوث گوالیری رحمتہ اللہ علیہ عرصہ دراز تک حضرت شاہ علی جیو رفاعی کی خدمت میں رہ کر مزید اکتساب فیض فرمایا ، آپ کی عظمت و بزرگی کو تسلیم کیا ، آپ سے نیازمندانہ ملاقات کرتے تھے جب تک گجرات میں رہے آپ کی خدمت میں آتے رہے اسرار معرفت و رموز حقیقت میں باہم مزاکرہ رہتا تھا ۔
( جواہر اسرار اللہ کی تنقیدی تدوین ، ص : 17،18،19،20 ، مقالہ براے پی ایچ ڈی ، شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ )
شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی اور واقعہ معراج جسمانی
حضرت سیدی شاہ علی
جیوگاؤ دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کے علوے مرتبت و اعلٰی مقام پر فائز ہونے کے ثبوت میں ذیل کے اس واقعہ سے بھی روشن دلیل مل جاتی ہے :
ایک دن مظفر شاہ گجراتی نے چند علماے گجرات سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کی دلیل طلب کی ۔ علماء جواب دیتے بھی تو کیا جواب دیتے ، سکوت اختیار کیا ، کسی نے دبی زبان سے حضرت شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی کا ذکر کرکے تمام علماء کو مواخزہ سے بچا لیا ۔ مظفر شاہ خود شاہ علی جی رفاعی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ اس وقت کلام اللہ کی کسی آیت شریف کی کتابت فرما رہے تھے ۔ جس وقت مظفر شاہ آپ کے سامنے پہنچا اور اپنا شبہ اور آنے کا عہد ظاہر کیا تو حضرت اس وقت آیت شریف کے کسی نقطہ کو درست فرما رہے تھے جس پر مظفر شاہ کی نظر بھی پڑ گئی اور جیسے ہی اس نے پلک جھپکائی خود کو کسی اور ہی دنیا کی سرحد پر کھڑا ہوا پایا ۔ جہاں کے لوگ اسی کی آمد کے منتظر نظر آے اور کشاں کشاں اسے لے کر اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کردیا ۔ بادشاہ نے اسی وقت اس کے حق میں اپنی سلطنت کے تمام امور سپرد کر دیے اور اپنی اکلوتی لڑکی سے نکاح کا اعلان کردیا ۔ مظفر شاہ عرصہ تیس سال یہاں متاہلانہ زندگی بسر کرکے ایک دن بازار میں سیر کرتا ہوا اک ایسے مکان میں پہنچا جہاں پر خطاط کو ایک نقطہ بناتے ہوئے دیکھ کر اس پر کیفیت طاری ہو گئی اور جب اسے ہوش آیا تو خود کو حضرت شاہ علی جی رفاعی کے سامنے اسی حالت میں کھڑا ہوا پایا اور حضرت کو بھی اسی طرح نقطہ بناتے ہوے منہمک دیکھتا رہا ۔ جب حضرت نقطہ سے فارغ ہوے تو مظفر شاہ سے آنے کا سبب دریافت فرمایا ، مظفر شاہ سے کچھ جواب نہ بن پڑا ۔ تھوڑی دیر سر جھکاے آپ کے سامنے ادب سے بیٹھ کر دعا کا طالب ہوا اور رخصت کی اجازت
چاہی ۔ ( جواہر اسرار اللہ کی تنقیدی تدوین ، ص 21 ، 22 )

 تاریخ و روایات کے اس پس منظر میں شاہان گجرات و دہلی کے غیر مستقل حکمرانوں کے واقعات ہمارے سامنے ہیں اور اسی ماحول میں حضرت سید شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی قدس سرہ کے شام و سحر سے کچھ واقعات کا انتخاب احتیاط اور پوری ذمہ داری سے کرکے زیب قرطاس کیاگیا ہے ۔ جس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ اس دور کے تمام صوفیاے ہند میں آپ کا مقام ہر حیثیت سے منفرد تھا ۔ 

476 واں سالانہ عرس رفاعی کی مناسبت سے دل کی اتھا گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہے ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے