سیاست و حالات حاضرہ

لازم ہے وقف ترمیمی بل کی مخالفت

تحریر: شہاب حمزہ
رانچی ، جھارکنڈ
8271100558

ملک کی آزادی سے امرت مہوتشو کے دوران صفحے سے حاشیے کے کسی نامعلوم گوشے تک کا سفر طے کرنے والے ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس اپنے وجود ،بقا اور شناخت کے لیے اگر کچھ باقی رہ گیا ہے تو وہ خستہ حال ہی سہی وقف کی املاک کے سوا کچھ اور نہیں ۔مسلم دشمنی کے جنون اور گندی سیاست کے سائے میں بی جے پی کی مسلم مخالف حکومت مسلمانوں کو اس سے بھی محروم کر دینا چاہتی ہے ۔یوں کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کی تہذیب و ثقافت اور شناخت کو مٹانا ہے تو اس کی زبان چھین لو لیکن اگر کسی قوم کو نیست و نابود کرنا ہے اس کی اقتصادیات پر حملہ کرو وہ قوم فنا و برباد ہو جائے گی ۔یہ ایک منظم سازش کے تحت وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے اقتصادیات پر براہ راست حملہ ہے ۔ذرا غور کریں گزشتہ دو اننگ کے دوران بی جے پی کی نریندر مودی حکومت نے کئی ایسے قانون بنائے جسے مسلمانوں کے خلاف عظیم ترین سازش اور مسلم دشمنی کے سوا کچھ اور نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ جن کی مخالفت کی صدائیں بھی مسلمانوں کی جانب سے اٹھتی رہیں۔ لیکن ایوان میں کمزور اپوزیشن اور مضبوط اقتدار کے نشے میں چور بی جے پی حکومت نے مخالفت کی ان تمام آوازوں کو تانا شاہی ستم کے سائے میں ایسے خاموش کر دیا کہ شاہین باغ جیسی عالمی شہرت یافتہ تحریک بھی تاریخ کے صفوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ۔ نریندر مودی قیادت کی تیسری پاری میں یہ پہلا موقع ہے جب وقف ترمیمی بل کی صورت میں مسلم دشمنی کا عظیم ثبوت ایوان میں پیش کیا گیا ۔ اس بل میں کم سے کم تین ایسی باتیں ہیں جو مسلمانوں کے بنیادی حقوق میں نہ صرف مداخلت ہے بلکہ بنیادی حق سے دست بردار کیے جانے کی جانب ایک اہم قدم بھی ہے ۔اول تو یہ کے مجوزہ قانون نہ صرف سنٹرل وقف کونسل بلکہ ریاستی وقف بورڈ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی نمائندگی کو بھی یقینی بنائے گا ۔یعنی اب تک وقف بورڈ جسے ہم مسلم پرسنل لا کا حصہ سمجھ رہے ہیں اس میں غیر مسلموں کی شراکت کو قانون کے سائے میں یقینی بنائے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے ۔ یعنی وقف بورڈ کی ملکیت کے تعلق سے اب تک جن چیزوں کا فیصلہ ہم مسلمان کرتے آ رہے ہیں اب ان فیصلوں میں غیر مسلموں کی رائے بھی شامل ہوں گے جو یقینی طور پر ہمارے فیصلے کو متاثر بھی کریں گے ۔ ذرا غور کریں کسی بورڈ کی ممبروں میں اگر مسلمانوں سے زیادہ باوقار غیر مسلم شخصیتوں کو رکھ دیا جائے تو ہماری مسلم نمائندوں کی حیثیت ان کے سامنے Yes man کے سوا کچھ اور نہیں ہوگی .یعنی ہماری کونسل اور بورڈ پر غیر مسلموں کا اختیار بھی ہو جائے گا ۔ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو یقین جانیے مستقبل قریب میں ایسا ہی ہوگا ۔ دوسری اہم بات ڈسٹرکٹ کلکٹر کو وقف املاک میں غیر معمولی اختیارات دیے جانے کی تجویز ہے ۔ یعنی سرکاری سطح پر آپ کے اوپر یہ ایک حاکم مسلط کیا جا رہا ہے ۔ جس کے تحت ضلع ہی نہیں گاؤں اور قصبوں کے وقف املاک پر نہ صرف مداخلت بلکہ فیصلے بھی متاثر ہوں گے ۔ یعنی صرف سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ ہی نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں گاؤں اور قصبوں کی وقف املاک پر بھی بہت حد تک سرکاری کنٹرول ہوگا ۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس بل کے تحت ایک مرکزی پورٹل اور ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا جس میں وقف کی جائیداد کا رجسٹریشن کیا جائے گا ۔ ساتھ ہی کسی بھی جائیداد کو وقف جائیداد کے طور پر رجسٹر کرنے سے پہلے تمام متعلقہ افراد کو مناسب نوٹس کے ساتھ ریونیو قانون کے مطابق میوٹیشن کے لیے تفصیلی طریقے کار کی فراہمی کی تجویز ہے ۔ وقف کی جائیداد صرف بڑے شہروں میں نہیں بلکہ چھوٹے شہروں، گاؤں اور قصبوں میں بکھرے پڑے ہیں ۔ جس کا رجسٹریشن مرکزی پورٹل پر لازمی ہوگا ساتھ ہی ریونیو قانون کے تحت میوٹییشن کی مشکل راہوں سے گزرنا ہوگا ۔یعنی وقف کی ملکیت کو قانون کے دائرے میں رجسٹریشن کرانے میں نہ صرف جدوجہد کے دور کا اغاز ہوگا بلکہ ان کاموں میں موٹے رقم بھی خرچ ہوں گے ۔کیا یہ ضروری ہے کہ ہمارے گاؤں، قصبوں اور شہروں کے تمام انجمن اس جدوجہد اور خرچ کے لائق اور آمادہ ہوں گے ۔ یہ اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے ۔
ہندوستان میں یہ بات زمانے سے کہی جا رہی ہے کہ ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمین وقف کی املاک میں شامل ہے ۔ ایک عام سروے کے مطابق تقریبا 10 لاکھ ایکڑ زمین وقف کی ملکیت ہے ۔ہماری ان زمینوں کا زیادہ تر حصہ گاؤں اور شہروں کے ہارٹ پلیس پر ملیں گی ۔سروے یہ بھی بتاتا ہے کہ وقف کی تمام زمینیں بہتر اور کارامد ہیں ۔بنجر اور بے کار زمین وقف کے حصے میں تقریبا نہیں کے برابر ہیں ۔اس بل کے تحت بات صرف زمینوں تک محدود نہیں بلکہ زمینوں پر کیے گئے تعمیرات یہ ایک اہم موضوع ہے ۔ آپ یاد رکھیں کہ وقف کی زمینوں میں ہماری مسجدیں آباد ہیں ۔ہمارے مدرسے اور خانقاہیں بھی ہیں ۔ ہماری عید گاہیں ہیں تو ہماری قبرستان بھی شامل ہیں ۔بزرگوں کے مزار ہیں تو درگاہیں بھی اسی املاک کے حصے ہیں۔ ہمارے امام باڑے ہیں تو کربلا کی زمین بھی وقف کا حصہ ہے ۔ میں برسوں سے یہ بات کہتا آ رہا ہوں کہ ہماری عید گاہیں اور کربلا غیروں کے نشانے پر ہیں کیونکہ ان زمینوں کا استعمال ایک سال میں صرف دو بار ہوتا ہے ۔ عید گاہ میں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز ادا کی جاتی ہے وہ بھی اگر موسم سازگار رہے تو ۔ کربلا کی زمین کا استعمال بھی ایک سال میں دو بار ہی ہوتا ہے ۔ اور ذرا غور کریں ہماری عید گاہیں عام طور پر شہروں کے بیچ میں واقع ہیں ۔ہمارے کربلا اور امام باڑوں کا بھی یہی حال ہے ۔ آپ یقین جانیں زمینوں کی حفاظت کرنا عید گاہوں اور کربلا کو ان کی اصل شکل میں دیر تک قائم رکھ پانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوگا ۔ اتنا ہی نہیں بزرگوں کے آشتانے ہماری مسجدیں اور قبرستان بھی وقف کا حصہ ہیں ۔ اس قانون کے تحت وقف کے تمام تعمیرات پر یہ غیر مسلموں کی شراکت یقینی بنایا جائے گا ۔آج وقف کی ملکیت کی دیکھ بھال کے لیے اور انتظامات کے لیے تمام شہروں ،گاؤں اور قصبوں میں انجمنیں قائم ہیں ۔ وقف کی ملکیت سے جن کے اخراجات چلتے ہیں ۔ اگر ہم اقتصادیات کی بات کریں تو مسلمانوں کے پاس اجتماعی فنڈ کا کوئی تصور نہیں سوائے وقف املاک کے ذریعے ہونے والی امدنی کے ۔ چاہے وہ شہروں میں میرج ہال ،مشافر خانہ، لاج یا دکانوں وغیرہ کی شکلوں میں ہوں یا گاؤں اور قصبوں میں دکانوں یا کاشتکاری کی زمینوں کی صورت میں ہوں۔ بہرحال یہ مسلمانوں کے لیے آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ ہے اور یہی امدنی مسلمانوں کے پاس فنڈ کا آخری تصور ہے ۔ جس پر مکمل کنٹرول مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ کچھ لوگوں نے وقف کی ملکیت کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگوں نے وقف املاک پر ناجائز قبضہ بھی کر رکھا ہے اور غلط طریقے سے اس کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بہت سی جگہوں میں وقف کی دکانوں، عمارتوں اور زمینوں پر لوگ قابض بھی نظر اتے ہیں ۔ لیکن محض اتنی سی بات کے لیے وقف کی ملکیت میں غیروں کی شراکت قبول کر لییا ہرگز جائز نہیں ۔اگر یہ بل منظور کر لی گئی تو آپ یقین جانیں صرف وقف کی زمین میں ہی نہیں بلکہ ان زمینوں میں تعمیر شدہ تمام عمارتوں پر مرکزی کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کہ غیر مسلم ممبروں کی شراکت بھی ہوگی ۔ساتھ ہی ساتھ یہ ہم مسلمانوں کے اقتصادیات پر اب تک کے سب سے بڑے حملے کی سازش ہے ۔ اگر بل پاس ہو گیا تو اقتصادی طور پر ملک میں مسلمان اور کمزور ہو جائیں گے ۔لہذا ابھی وقت ہے کہ ہم سڑکوں پر اتر کر اس کی پرزور مخالفت کریں ۔میری نظر میں ہر مسلمان پر اس بل کی مخالفت لازمی ہے ۔موجودہ وقت اور حالات ہمیں ایک اور شاہینی تحریک کی دعوت دے رہے ہیں اگر وقت رہتے ہم نے لبیک نہیں کہا تو کل ہمارے پاس انسو نہیں ہوں گے کہ ہم اپنی حالت زار پر بہا سکیں اور آنے والی نسلیں بھی ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔

برقع کی آڑ میں یہ پوشاک مانگتے ہیں
اب وقف سے ہماری املاک مانگتے ہیں
درگاہ ،مسجدیں بھی اور خانقاہ اپنی
قبروں سے یہ ہماری اب خاک مانگتے ہیں

Shahab Hamza
At & po Itki
Dist – Ranchi
Jharkhand , India
Pin 835301
Mail – shahabhamza000@gmail.com

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے