حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں کہ اہلسنت کے نزدیک انبیاء وشہداء علیہم التحیۃ والثناء اپنے ابدان شریفہ سے زندہ ہیں بلکہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کے ابدانِ لطیفہ زمین پر حرام کئے گئے ہیں کہ وہ ان کو کھائے ، اسی طرح شہداء واولیاء علیہم الرحمۃ والثناء کے ابدان و کفن بھی قبور میں صحیح و سلامت رہتے ہیں وہ حضرات روزی و رزق دئے جاتے ہیں۔
قاضی ثناءُاللہ صاحب پانی پتی تذکرۃُ الموتی میں لکھتے ہیں؛
"اولیاء اللہ گفتہ اندارواجنا اجسادنایعنی ارواح ایشاں کار اجساد مے کنند وگاہے اجساد ازغایت لطافت برنگ ارواح مے برآید، می گویند کہ رسول خدا راسایہ نبود ( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ) ارواح ایشاں از زمین وآسمان وبہشت ہر جاکہ خواہند مے روند ، وبسبب ایں ہمیں حیات اجساد آنہار ا درقبرخاك نمی خورد بلکہ کفن ہم می باند ، ابن ابی الدنیا از مالك روایت نمود ارواحِ مومنین ہر جاکہ خواہند سیر کنند ، مراد از مومنین کاملین اند ، حق تعالٰی اجسادِ ایشاں راقوتِ ارواح مے دہد کہ دوقبور نماز میخوانند (ا داکنند) وذکر می کنند وقرآن کریم مے خوانند” اولیاء اللہ کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں ہمارے جسم ہیں۔ یعنی ان کی ارواح جسموں کا کام دیا کرتی ہیں اور کبھی اجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں جہاں بھی چاہیں آتی جاتی ہیں ، اس لیے قبروں کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔ ابن ابی الدنیاء نے مالك سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سَیر کرتی ہیں۔ مومنین سے مراد کاملین ہیں ، حق تعالٰی ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآن کریم پڑھتے ہیں ـــــــــــــــــ
اور شیخ الہند محدث دہلوی علیہ الرحمۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں؛
"اولیاء خدائے تعالٰی نقل کردہ شدندازیں دارفانی بداربقا وزندہ اند نزد پرودگار خود ، ومرزوق اندوخوشحال اند ، ومردم را ارزاں شعورنیست” اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے وہ خوش حال ہیں، اور لوگوں کو اس کا شعور نہیں ـــــــــــــــــ
اور علاّمہ علی قاری شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں؛
"لافرق لھم فی الحالین ولذ قیل اولیاء اﷲ لایموتون ولکن ینتقلون من دارٍ الٰی دار ،الخ” اولیاء اﷲ کی دونوں حالتوں (حیات وممات) میں اصلًا فرق نہیں’ اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایك گھر سے دوسرے گھر میں تشریف لے جاتے ہیں ـــــــــــــــــ
مذکورہ بالا باتوں سے یہ معلوم ہوا کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، شہدائے عظام اور اولیائے کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مبارک جسم قبروں میں صحیح و سلامت رہتے ہیں
(فتاویٰ رضویہ جلد9 صفحہ 433/432/431)
ازقلم: محمد اشفاق عالم ألامجدی العلیمیٓ ( بچباری آبادپور کٹیہار) ألمتخصص فی الفقہ الحنفی 7866936010 خادم؛ مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز