رونقیں بھی گئیں سب اُجالا گیا
اور گھروں سے تمہیں پھر نکالا گیا
اب شریعت بھی محفوظ ہرگز نہیں
اب عمامہ تمارا اچھالا گیا
مرثیہ قوم کا کب سناتے ہیں ہم
خواب غفلت سے تم کو جگاتے ہیں ہم
اب یہ مردہ دلوں پر اثر کچھ کرے
بات حالات کی بس بتاتے ہیں ہم
پھر یہ کہہ کے زمانے سے رونا نہیں
ہاتھ سے اب تمارے نوالہ گیا
اب عمامہ تمارا اچھالا گیا
حکم پہلا ہے رب کا یہ اقرا پڑھو
تم پڑھو تم پڑھو تم پڑھو تم پڑھو
دین کا علم بھی اور دنیا کا بھی
گود سے گور تک تم پڑھو بس پڑھو
حکم پہلا یہ رب کا نہ مانا گیا
علم کو سب گھروں سے نکالا گیا
اب عمامہ تمارا اچھالا گیا
بیچ کے برسوں سے تم تو کھاتے رہے
عیش و عشرت میں سب کچھ لٹاتے رہے
ان زمینوں پہ دیکھو نہ اے صاحبوں
بس انا کا مکاں تم بناتے رہے
تم ہی ناسور ہو قوم کے رہبرو
وقف کا مال و زر نا سنبھالا گیا
اب عمامہ تمارا اچھالا گیا
ظالموں کے ہمیشہ رہے روبرو
امن و آماں تمہاری رہی جستجو
خود کو مظلوم تم ہی سمجھنے لگے
تم سدا سے وطن کی رہے آبرو
حق کی آواز خاموش کر دی گئی
تم کو خیراتی ٹکڑوں میں پالا گیا
اب عمامہ تمارا اچھالا گیا
سب مدارس کی دیکھوں نا زینت گئی
انجمن کی تمہاری بھی عزت گئی
حال اوقاف کا بد سے بدتر ہوا
سب اداروں کی جیسے کہ عظمت گئی
جاں کنی جیسی حالت میں اخبار ہے
سب صحیفے گئے اور رسالہ گیا
اب عمامہ تمارا اچھالا گیا
یہ حجابوں طلاقوں میں الجھا دئے
مسجدوں کے یہ جھگڑوں میں الجھا دئے
مسلکوں کی یہ سازش میں جھونکے تمہیں
تم کو آپس کے فتنوں میں الجھا دئے
ٹانگ کھینچا ہے تم نے فقط بھائی کا
اپنے کردار کا سب حوالہ گیا
اب عمامہ تمارا اچھالا گیا
رفتہ دفتہ یہ غدار کہنے لگے
یہ برائے وطن بار کہنے لگے
بزدلی نے تمہاری دیا حوصلہ
تم کو بے سود بےکار کہنے لگے
تم سے باقی وطن کی تھی عزت مگر
کھوٹے سکّوں میں تم کو تو ڈھالا گیا
اب عمامہ تمارا و اچھالا گیا
نتیجۂ فکر
۔۔۔۔ شہاب حمزہ ۔۔۔۔۔
8340349807