ایک وقت تھا جب ہم بھی بین المسالک اتحاد کے متعلق سوچتے تھے، پھر حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کا خطبہ صدارت پڑھا، بحمدہ تعالی شرح صدر ہوا، آج کل ایودیھیا کی زمین پر ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے بہت کچھ نہ کہہ کر صرف ایک بات کہتے ہیں جو گانٹھ باندھ لے گا نجات پائے گا –
"جس طرح موجودہ وقت میں مسلم سیاست داں کچھ بھی کر لے اسے غیر مسلم ووٹ نہیں مل سکتا، ٹھیک اسی طرح دیابنہ، وہابیہ، روافض وغیرہ وغیرہ کے لیے سنی شخص کچھ بھی کر لے وہ اسے قبول نہیں کر سکتے” جیسے غیر مسلم سیاست میں آپ کو استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں ایسے ہی یہ گمراہ لوگ اہل سنت کے لوگوں کو استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں –
خود کو بڑا سیاسی بازی گر سمجھنے والے بھی جانتے ہیں کہ وہ استعمال کرکے پھینک دیے جائیں گے،لیکن شہرت کی بھوک باز نہیں رہنے دیتی، دنیا تو ملنے سے رہی، اہل سنت کا باغ بھی سنی شخص کی شرکت سے اجڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے –
عوام اہل سنت تو یہ جانتی ہے کہ فلاں شخص اشرفیہ سے جڑا ہے یا موجودہ شخص سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، یا کسی معتبر خانقاہ و مدرسے سے اس کا ربط و ضبط ہے، عوام کو گمراہ ہونے کو یہی کافی ہے –
جو علماء اہل سنت ایک صدی سے گم راہوں کا رد فرما کر عوام اہل سنت کو ان سے میل جول سے روکے ہوئے تھے اب ان حضرات کی شرکت سے وہ بند ٹوٹ جاتا ہے اور اہل سنت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، جب کہ دوسری جانب بھی ان حضرات کو تھوڑی دیر کی چمک ہی ملتی ہے پھر سیاسی تاریکیوں میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں…
واللہ رب العزت ہمارے لوگوں کو سمجھ عطا فرمائے۔
ازقلم: محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
26/9/2024