چھ دسمبر کا دن ہمارے تاریخ کا وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنے ماضی کی یاد دلائی جاتی ہے، ایک ایسی یاد جو گہرے غم اور زخمی دلوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ چھ دسمبر 1992 کو جب بابری مسجد کے انہدام نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا، وہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے نہ صرف مسلمانوں کو غمگین کیا، بلکہ ملک بھر میں فرقہ واریت کی لہر کو بھی جنم دیا۔ اس دن کی یادیں آج بھی ہمارے دلوں میں تازہ ہیں، جب ایک تاریخی عبادت گاہ کو شہید کر دیا گیا اور بے شمار انسانوں کی زندگیوں میں خونریزی، نفرت اور تشویش کا سامنا ہوا۔ یہ دن ہمیں سنبھل، کاشی، متھورا اور دہلی کی جامع مسجد کی یاد دلاتا ہے، جہاں مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی تشخص کو چیلنج کیا گیا، اور جہاں ہم نے اپنی حفاظت اور بقا کے لیے جدوجہد ک اجمیر شریف، جہاں خواجہ غریب نواز کی مزار اقدس ہے، ایک ایسی جگہ ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتی ہے۔ وہاں کی فضائیں آج بھی محبت، اتحاد اور سکون کی گواہی دیتی ہیں۔ لیکن جب ان مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو دل میں ایک کرب کا احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور اپنی شناخت کو کس طرح بچا سکتے ہیں۔
چھ دسمبر کی تاریخ ہمیں سنبھل، کاشی، متھورا اور دہلی کی جامع مسجد ،اجمیر شریف کی یاد دلاتی ہے، جہاں مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی تشخص کو چیلنج کیا گیا۔ یہ وہ مقام ہیں جہاں ہماری مساجد اور ہماری شناخت پر سوالات اٹھائے گئے، اور جہاں ہم نے اپنی حفاظت اور بقا کے لیے جدوجہد کی۔ ان واقعات کے بارے میں غم منانا، ان یادوں کو زندہ رکھنا، اور ان تکلیفوں کا احوال کرنا کسی بھی طرح غلط نہیں ہے، بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ غم صرف ایک روز کا نہیں ہونا چاہیے؛ یہ ہمیں خود کو بہتر بنانے کی تحریک دینی چاہیے۔
ہمارے گاؤں کی مسجد میں جب جماعت کھڑی ہوتی ہے، تو بمشکل دو صفیں بن پاتی ہیں۔ یہ تصویر ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنی روحانی اور اجتماعی طاقت کو کہاں کھو چکے ہیں۔ جب ہمیں اپنے ماضی کے درد اور تکلیفوں کا غم منانے کا حق ہے، تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مساجد کا حال بھی اسی غم کا مظہر ہے۔ کیا یہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہماری مسجدوں کی صفیں خالی کیوں ہیں؟ کیا ہم نے ان مساجد کا جو غم منایا ہے، ان کا حق ادا کیا ہے؟
یہ دن صرف غم منانے کا دن نہیں، بلکہ اپنی عبادات، اپنے کردار اور اپنے عمل کو سدھارنے کا دن ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دن ہمیں سنبھل، کاشی، متھورا اور دہلی کی ان مساجد کے بارے میں یاد دلاتا ہے، لیکن اس یاد کو محض غم میں تبدیل نہ کریں۔ اس غم کو ایک تحریک میں بدلیں۔ اپنی مسجدوں کو آباد کریں، اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دیں، اور اپنی صفوں کو مضبوط کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم نہ صرف اپنے ماضی کو عزت دے سکتے ہیں، بلکہ اپنے حال اور مستقبل کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔
غصہ اور نفرت کی اس دنیا میں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہماری مسجدیں، ہمارے عقائد اور ہماری عبادات ہیں۔ چھ دسمبر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم غم ضرور منائیں، مگر اس غم کو اس قدر مثبت طریقے سے تبدیل کریں کہ ہم اپنی مسجدوں کو آباد کر سکیں، اپنی صفوں کو دوبارہ مضبوط کر سکیں، اور اپنی نسلوں کو دین کی طرف متوجہ کر سکیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں حقیقی کامیابی کی طرف لے جائے گا اور دنیا کو یہ دکھائے گا کہ ہم اس امت کے وارث ہیں جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا۔
"میرے دل کی آواز کو اس تحریر کے ذریعے آپ تک پہنچانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے، تاکہ ہم سب ایک نئی روشنی کی طرف بڑھ سکیں۔”
ازقلم: نورعین سلیمانی
سکونت : افسانہ روڈ بہادر گنج