امت مسلمہ کے حالات

میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے !!!

ہر دور میں ظلم کے خلاف صدائے بازگشت بلند کرنے والے رہے ہیں۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہی وہ خطِّ امتیاز رہے ہیں جو بر وقت ظالم کو ظالم، اور مظلوم کو مظلوم کہہ کر اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنے ضمیر کی سلگتی بھٹی میں کندن بن کر ایسی خط رقم کر جاتے ہیں جو امتیای حیثیت رکھتی ہے۔ اور ان کی قربانیاں عوام الناس سے خطاب کر کے کہتی ہیں، لوگوں دیکھ لو یہی ظالم ہے، یہی مظلوم ہے۔

انہیں حق پسندوں اور صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کی اتباع کرتے ہوئے، آج میں بھی ظلم کو ظلم کہوں گا، جور کو جور کہوں گا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں خود کا ان کی گروہ میں شمار کرتا ہوں۔ میری حیثیت تو انکے قدموں کی دھول جتنی بھی نہیں۔ ہاں اللہ نے مجھے لکھنے کا ہنر عطا کیا ہے تو اس کا کچھ حق بنتا ہے۔ وہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہے۔ ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہہ کر موسوم کرنا ہے۔ سو میں اپنا قرض ادا کررہا ہوں، کچھ اور نہیں۔ چار مصرعوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ !!!

آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے

اب اتنی سی وضاحت کے بعد آتے ہیں اصل مدعیٰ پر آج 6 دسمبر کا سیاہ فام دن، اتنا سیاہ فام کہ اس نے شبِ دیجور کی دیجوری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ وہی دن تھا جس دن ظلم وجبر کی ایک نئی داستان ہندوستان کی تاریخ کے صفحات کو سیاہ رنگ کی سیاہی سے، اب تک سیاہ کر رہی ہے۔ آج ہی کا وہ دن تھا جس دن جمہوریت کا گلا گھونٹ کر، سرِ بام اس کو ننگا ناچ نچایا جارہا تھا۔

یہی وہ دن تھا کہ ایک فریق کی دلیل سے نفور محض باطل دعویٰ کی سماعت پر دوسرے فریق کے سرمایۂ افتخار کو ظالموں نے ظلم کو بھینٹ کر دی۔ آج ہی کا وہ دن تھا جب بابری مسجد کو رام مندر کہہ کر خانۂ خدا کی حرمت کو نیلام کیا گیا تھا۔ آج ہی کا وہ دن تھا جب مسلمانوں کو بابری جیسے ایک عظیم سرمایہ سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ آج ہی کا وہ دن تھا جب ہمارے امید کا قلع قمع کیا گیا تھا۔ آج ہی کا وہ دن تھا جب ہم نے ظلم کو ظلم اور باطل کو باطل کہہ کر علم بغاوت بلند کیا تھا، مگر ہماری چند نہ سنی گئی تھی۔

ظالم اس غفلت میں نہ رہے کہ ایک مرتبہ ہم نے بابری پر غاصبانہ قبضہ کرلیا، تو مسلمان اسے بھلا دے گا۔ ہرگز ایسا نہیں ہم اپنی نسلوں کو بابری مسجد کے نقشے ازبر کروادیں گے۔ تم کیا کیا اور کون سی نشانیاں مٹاؤ گے؟؟؟

جتنا بھی مٹا لو نقش و نقوش
ہے دل میں ہمارے سارے نقوش

دل پر تو تمہارا کچھ اختیار نہیں، اور گھبراؤ نہیں بابری ہماری تھی، ہے اور رہے گی۔ کیوں کہ ظلم کی عمر اگر چہ دراز ہو مگر پائیدار ہرگز نہیں ہوتی۔ تمہارا حصارِ ظلم، اور جور و جفا کے سلاسل و اغلال ایک دن ضرور ٹوٹیں گے۔ ہمیں اللہ کی ذات پر توکل ہے، آج تمارا وقت ہے، فقط وقت لیکن یاد رکھنا ہمارا بھی دور آئے گا۔ پھر دیکھتے ہیں تم کیا کرتے ہو !!!

آخری بات کہہ کر اب رخصت ہونا چاہتا ہوں، دل فسردہ تو ہے کہ کچھ کر نہیں سکتا سوائے کچھ سطور رقم کرنے کے، جو کررہا ہوں۔ اللہ کریم مزید قوت دے کہ ظالم کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرسکوں۔ باغی ہوں تو باغی ہی سہی۔ مگر ہاں
سن لیں اعداء میں بگڑنے کا نہیں
وہ سلامت ہیں بنانے والے !!!!

اعداء بھی سن لیں ہم ہارنے اور تھکنے والے نہیں، ایک بار پھر جملہ دہراتا ہوں کہ بابری ہماری تھی، ہے اور رہے گی۔ اور ظالم کے خلاف علمِ بغاوت تنا تھا، ہے اور رہے گا۔

راقم الحروف : محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے