از قلم: محمد یوسف رضا قادری مدنی(رکن جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء، نئی دہلی)
بی جے پی نے وقف میں ترمیم کا جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا اس کے بارے میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس بل سے وقف کی املاک محفوظ ہوجائیں گی اور اس کا صحیح استعمال ہوگا اور جب مسلم دانشوروں کی طرف سے اس بل کے اسقام کی نشاندہی کی گئی اور یہ ثابت کیا گیا کہ یہ بل مسلمانوں کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ نقصان پہنچا نے کے لیے بنایا جارہاہے تو مسلم دانشوروں پر اور خصوصاً ممبر آف پارلیمنٹ جناب اسد الدین اویسی صاحب پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ مسلمانوں کو بل کے بارے میں گمراہ کررہے ہیں بل تو مسلمانوں کے اور اوقاف کے فائدے کے لئے بنایا جارہاہے
مگر اب گزشتہ کچھ روز سے اچانک ہندؤں کی جانب سے اس بل کی حمایت شروع ہوگئی اور خاص طور پر شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے ۔۔ وہ گنپتی کے پنڈال میں کیو آر کوڈ اسکین کرکے اس بل کی حمایت میں ای میل کی پوری تحریک چلانے لگے جتنی سرگرمی مسلمان اس بل کی مخالفت میں دکھار ہے اس سے زیادہ سرگرمی متشدد ہندو اس کی حمایت میں دکھا رہے ہیں
اب موجودہ مرکزی حکومت سے سوال ہے کہ اگر یہ بل مسلمانوں کے اور اوقاف کے مفاد میں لایا جارہاہے تو متشدد ہندو اس کی حمایت میں کیسے سڑکوں پر آگئے آخر وہ شدت پسند ہندؤ جو آئے دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں اپنی شدت پسندی کا شکار بناتے ہیں وہ فائدہ پہنچانے والے بل کی حمایت میں کیوں کھڑے ہوگئے ؟
اس سے اس بل کی ساری حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے
بی جے پی کئی قوانین ایسے بنا چکی ہے جس کا مقصد ہی مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور شریعت اسلامیہ پر ضرب لگانا تھا مگر اسے بناتے وقت بھی بی جے پی کا دعویٰ یہی تھا کہ ہم یہ مسلمانوں کی اور ان کی خواتین کی بھلائی کے لئے بنارہے ہیں
ہم بی جے پی سے اور خصوصاً ملک کے پردھان منتری سے صاف لفظوں میں کہنا چاہیں گے کہ خدارا جب تک آپ حکومت میں ہیں ہماری بھلائی کا کوئی قانون نہ بنائیں آپ کا بنایا ہوا ہر قانون ہمیں نفع پہچانے کی بجائے نقصان پہنچاتا ہے اور بل کے پاس ہونے کی مدت بھی ہمیں ایک کرب میں مبتلا کردیتی ہے
دوسری اہم بات یہ عرض کرنی ہے کہ جب یہ بل مسلمانوں اور اوقاف سے متعلق ہے تو اس میں صرف اور صرف مسلمانوں کی رائے لینا چاہئیے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس مہم میں ہندو بھی میدان میں آگئے ہیں اور بل کی حمایت میں ای میل کررہے ہیں اگر جے پی سی نے ہندؤں کی بھی رائے کا اس میں اعتبار کیا تو یہ مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی اور اسے ہم ایک سازش سے تعبیر کریں گے ہندؤں کی آبادی 80 فیصد ہے اور مسلمانوں کی 20 فی صد۔۔ جیسا کہ الیکشن کے مواقع پر بھی شدت پسند ہندؤ لیڈروں نےاس بات کی بنیاد پر ہندؤں کو بھڑکایا تھا کہ یہ اسی اور بیس کی لڑائی ہے تو ظاہر ہے کہ ان کے ای میل بھی اسی تناسب سے جائیں گے تو یہ تو پہلے ہی گویا فیصلہ ہوگیا کہ بل کی حمایت میں زیادہ رائے آئی ہے اس لیے بل پاس کردیا جائے
اس لئے ہم جوائنٹ پارلمنٹری کمیٹی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خالص مسلم مسئلے میں مسلمانوں کی رائے کا احترام کریں اور ہر قدم اسی بنیاد پر اٹھائیں۔