عصر حاضر میں نت نئے فتنہ معرض وجود ہو کر منصۂ شہود پر آرہے ہیں، انھیں میں سے ایک مسئلہ فلسطین کا بھی ہے، چھ اکتوبر کو فتنہ وفساد،جنگ وقتال کا سلسلہ شروع ہوا تھا، اور اب تک وہاں کی جنگ مسلسل جاری وساری ہے، کئی ہزار سے زائد اسلامی ماؤں ،بہنوں، بھائیوں کو قتل زنی وغارت گری کر کے دشمنانِ اسلام بنیادِ اسلام کو جڑ ہی سے اکھاڑ پھینکنے اور پس پشت ڈالنے اور استیصال و بیخ کنی کرنے کے مقتضی وملتجی ہیں ، وہ لوگ تو ہمارے نظروں ونگاہوں کے سامنے سے پلک جھپکتے اوجھل ہو رہے ہیں، لیکن یہ حقیقیت میں قتل نہیں، بلکہ شہید ہوکر واصل جنت ہو چکے ہیں، ابھی بھی کئی ایسے مرد مجاہد ہیں، جو باطل فرقوں اور ظالموں وسرکشوں کی سرکوبی ومقابلہ کرنے کے لیے سرگرم وکوشاں ہیں۔
"فلسطین” حالیہ ایام میں ہمارے فلسطینی اخوان المسلمین کو مختلف طرح سے مصائب وآلام ورنج والم پہونچایا جا رہا ہے ، حق وباطل کے مابین امروز سے تقریباً دس بارہ ماہ سے پیشتر وقبل ہمارے دینی بھائیوں کو قتلِ عام وغارت کیا جا رہا ہے، ان پر ظلم وبربریت، ستم و تعدی، جبر واستبداد، جور وجفا کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، مظلوم فلسطینی شہیدی بھائی اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے اپنے جان کو راہ خدا میں قربان کر رہے ہیں، فلسطین کے بچے کرب وبلا کے عالم میں "عطش” اور "جوع” کا لفظ چیخ چیخ کر صدائے بلند کر رہے ہیں، کتنے تو ایسے ہیں جو شکم سیر و آسودہ حال نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کر رہے ہیں۔ کتنے تو ایسے ہیں جو مسجد اقصی کے شرف بازیابی اور حفاظت وصیانت میں کوئی قصر نہیں چھوڑ رہے ہیں،
57اسلامی ممالک کے حکمران وبر سر اقتدار کو اب تک تو اسرائیلی فوج ولشکر کو نیست ونابود وکالعدم قرار داد جرم عائد کی جانی چاہیے تھی، لیکن یہ اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن اور اعدائے دیں میں شمار ہونے والے صاحب اقتدار، حیرت بالائے حیرت، اسلامی ممالک کے حکمراں پر جو اپنی گرم جوشی اور نرم بستر استراحت پر اطمینان وسکون والی زندگی جی رہے ، اور اپنے دینی فلسطینی بھائیوں کو نسیا منسیا کرکے ان کے بابت لب کشائی کرنے کی جسارت نہیں رکھتے اور بولنے کو حقارت آمیز تصور کرتے ہیں، خوابِ غفلت کے شکار اور مدہوش نظر آرہے ہیں، یہ سرداران صاحبان دشمنانِ اسلام ہمارے محبان دیں پر حملہ آوری کو دیکھنے کے باوجود تماشائی بنے بیٹھے اور سکوت وجمود اختیار کرکے نظر انداز کر رہے ہیں جبکہ اہل فلسطین کے لیے نا سونے کے لیے موضع ہے، نا کھانے پینے کے لیے اشیائے خورد ونوش ، بھوکے، پیاسے ، نہتے، در بدر بھٹک رہے اور در، در کی ٹھوکریں کھا رہیں ،
صفحۂ قرطاس اہل فلسطین کے حادثات و واقعات خون سے آلودہ وشرابور ہیں، افسوس ہوتا ہے ایسے جاہل صفت اور یتیم العلم، خبیث النفس حکمراں پر جو فلسطینی بھائیوں سے اتحاد، یکجھتی، ویکطرفی کرنے بجائے یہودیوں صیہونیوں سے اخوت ومحبت کا رشتہ استوار کر رہے ہیں، وہاں کے مناظر دیکھ کر فلسطینیوں کی غم وفریاد سن کر قلبی دکھ و تکلیف ہوتی ہے، فلسطینوں کے بابت لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے بس یہی دعا ہے کہ اللہ رب العزت کسی ایسے مرد مجاہد کو قہرِ جبار بنا کر بہیجے یا پھر کسی فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدیں ایوبی جیسا عظیم مجاہد بنا کر بہیجے، جو فلسطینیوں کی امداد بھی کرے اور مخالف اسرائیلیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر واصل جہنم بھی کردے فلہذا ہم دوسرے ملک میں رہ کر کچھ کر بھی نہیں سکتے، تو ہمیں چاہیے کہ جب رات کی ظلمت وتاریکی میں، اور دن کے روشن و اجالے میں اپنے لیے دعا کرنے کے غرض سے ہاتھ اٹھائیں تو فلسطینی بھائیوں کو ضرور بالضرور یاد رکھیں۔
فلسطین کی چھوٹی چھوٹی بچیاں پولیس کے سامنے اپنی جرأت مندی کا مظاہرہ کرکے حق وصداقت کا علم لہرانے کی ملتجی ہے، پولیس کے نرغے میں رہ کر ان سے خوف وہراس کھانے کی بجائے خود کو تنہا نہیں سمجھا بلکہ حق کی سر بلندی کے لیے اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیا، اور ان پر اپنے ہاتھ کو اٹھا کر بتا دیا کہ ہم کسی ظالم کے شیدائی نہیں ہیں، ہم چند پیسے کے عوض اپنے دین وایمان کو ضائع نہیں کرتے ہیں، ہم اپنے دین سے کھلواڑ اور مذاق نہیں کرتے، غرض کہ کسی حرص ولالچ میں اپنے آپ کو فروخت کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اپنے دین پر مستحکم ومضبوطی،استقلال و استقامت کے ساتھ قائم ودائم ہیں، اور جب تک باحیات رہیں گے اپنے دین وایمان پر ثابت قدم رہیں گے، اگر تم ہمیں یا ہمارے خاندان والوں کو ہزار گالیاں دیتے ہو تو چلے گا، لیکن اگر حضورﷺ کی شان میں گستاخانہ بھرے جملے استعمال کی، یا پھر کسی نے ان کی شان میں ذرہ برار بھی لب کشائی کی، یا اگر کسی نے ان کے بارے میں گستاخی کی، اگر چہ تھوڑا سی بھی ان کے شان کی تنقیص کرتا ہے، تو اسے ہم کبھی زندہ نہیں چھوڑیں گے، یا تو جو گستاخیاں اس نے کی ہے، اس سے توبہ ورجوع کرلے تو فبہا ورنہ ہم اس کے زبان کو لگام دے دیں گے، اس کا سر تن سے جدا کردیں گے، اور ہر شئ میں مسلمان ہی غالب رہے گا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان عالی شان ہے:
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(القرآن الکریم)
ترجمہ کنزالعرفان: اور تم ہمت نہ ہارو اور غم نہ کھاؤ، اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے ۔
فلہذا فلسطین کی موجود حالت ہمیں یہ درس عبرت دے رہی ہے کہ ہمیں کبھی اپنے دین سے سمجھوتا نہیں کرنا ہے، بلکہ اپنے دین وایمان کی حفاظت کرکے دین کی سربلندی کے لیے جان چلی جانے کا خدشہ ہو تو ہم اپنے آپ کو اپنے مذہب ومسلک کے خاطر حضورﷺ کے قدموں میں نثار کردیں گے، ہم خواہ کہیں بھی ہوں، ہمیں دشمن سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مردانہ وار مقابلہ کرکے یا تو اسے شکست فاش دے دیں گے یا خود اپنے دین کے خاطر مر جائیں گے۔ رب قدیر اہل فلسطین کو فتح ونصرت کا علم لہرانے اور اعدائے دیں کو ذلت آمیز، تحقیر وتذلیل والی شکست فاش سے دوچار فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
ازقلم: محمد ارشاد احمد قادری
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی