ازقلم: پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)
محسن انسانیت ﷺکی بعثت کا مقصد وحید رب کائنات کے بندوں کو کفرو شرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں اور ضلالت و گمراہی کے دلدل سے نکال کر رشد و ہدایت کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔ وجہ تخلیق کائناتﷺ کی تشریف آوری کے باعث اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرے مہینہ یعنی ماہ ربیع النور کو تاریخ اسلام میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ رب کائنات حضرت سیدنا موسیٰؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو یاد دلائیں کہ اس طرح ہم نے انہیں جابر و ظالم فرعون کے ظلم و استبداد اور غلامی سے رہائی دلائی تھی تاکہ وہ نصیحت قبول کریں ۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ : ’’ یاد دلائو انہیں اللہ تعالی کے دن یقینا اس میں نشانیاں ہیں‘‘ (سورۃ ابراہیم آیت 5) ۔ امام المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباس کے قول کے مطابق ’’ایام اللہ ‘‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں رب کائنات کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو۔ ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کا دن مرقع ہر خوبی و زیبائی ﷺ کا یوم ولادت باسعادت ہے ۔ (بحوالہ تفسیر خزائن العرفان)۔سیرتِ طیبہ کی اہمیت و افادیت سے لوگوں کو واقف کروانے اور عشق و محبت مصطفیﷺ سے مومنین کے قلوب کو مزین کرنے میں محفل میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں مسلمان اس دن خوشی، مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہیں اوراس دن بطور خاص فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سرور کونینﷺکا ذکرجمیل کرتے ہیں ۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ لوگ ہمیشہ مقصد کے حصول میں کامیابی و کامرانی پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں پوری دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جو زندگی کے کسی میدان میں ناکام و نامراد ہوجائے اور وہ اس پر اپنی خوشی کا اظہار کررہا ہو جشن میلاد اس وقت بامقصد ہوگا جب ہمارے تمام افکار و خیالات اور افعال و اعمال سیرت و تعلیمات مصطفیﷺ کے عین مطابق ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے تو ہم میں اور ایام جاہلیت کے لوگوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ترجمہ: ’’یقینا بڑا احسان فرمایا اللہ تعالی نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہیں میں سے پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے انہیں قرآن اور سنت اگرچہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے‘‘ (سورۃ آل عمران آیت 164) ۔یعنی یہ تاجدار کائناتﷺ کی بعثت کا ہی صدقہ تھا جس کے باعث فسق و فجور کی زندگی گزارنے والا درندہ صفت انسان بھی امن و سلامتی صلح و آشتی کا پیامبر بن گیا اور علم و تہذیب سے عاری معاشرہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ بن گیا۔ میلاد النبیﷺ کی خوشیاں منانے کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنی حاجات و ضروریات اور چاہت و خواہشات کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے اپنی زندگیوں میں تعلیمات اسلامی کے مطابق دینی، فکری، اخلاقی اور اجتماعی انقلاب لائیں اور فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے عظیم مفاد میں متحد و منظم ہوجائیں جو وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اقوام و ملل کے عروج میں اخوت و اتحاد، وحدت اور برادرانہ تعلقات کا بہت اہم رول ہوتا ہے جبکہ باہمی اختلافات، گروہ واریت اور تفرقہ سے انسان ہمیشہ پستی و زوال کا شکار ہوا ہے۔ آمد مصطفیﷺ کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ کینہ پروری اور باہمی اختلافات و تنازعات کو طاق نسیاں پر رکھ دیا جائے، نفرتوں اور رقابتوں کو محبتوں اور الفتوں میں تبدیل کرکے کل کے دشمن کو آج کا دوست بلکہ بھائی بنادیا جائے۔ اسی عظیم مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید ارشاد فرما رہا ہے ترجمہ: ’’ اور یاد رکھو اللہ تعالی کی وہ نعمت (جو اس نے ) تم پر فرمائی جب کہ تم تھے (آپس میں) دشمن پس اس نے الفت پیدا کردی تمہارے دلوں میں تو بن گئے تم اس کے احسان سے بھائی بھائی اور تم (کھڑے) تھے دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تو اس نے بچالیا تمہیں اس (میں گرنے) سے ‘‘ (سورۃ آل عمران آیت103)۔ اس آیت پاک کی تفسیر کرتے ہوئے جسٹس پیر کرم شاہ ازہریؒ رقمطراز ہیں ’’رحمت عالمﷺ کی تشریف آوری سے قبل عرب کے جزیرہ نما کی کیا حالت تھی۔ وہ آپس میں اُنس و محبت اور شفقت و رحمت کرنے والے انسانوں کا ملک نہیں تھا بلکہ ایک کوہِ آتش فشاں تھا جس سے ہر لحظہ اور ہر لمحہ بغض و عناد کی آگ برستی رہتی تھی اور دور دور تک آبادیاں جل کر خاکستر ہوجایا کرتی تھیں۔ جذبات اتنے مشتعل اور بے قابو تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر خون کی ندّیاں بہہ جایا کرتی تھیں۔ حضور سراپا نور و سرورﷺ کا ظہور ہوا تو عرب کے اجڑے دیار میں بہار ااگئی۔ عداوت کی جگہ محبت نے، وحشت کی جگہ اُنس نے، انتقام کی جگہ عفو نے ، خود غرضی کی جگہ اخلاص و ایثار نے اور غرور و تکبر کی جگہ تواضع و انکسار نے لے لی۔ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محبوب کریم ﷺکی برکت اور فیضِ نگاہ سے انسانوں کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑ دیے اور انہیں بھائی بھائی بنادیا اور ذلت و رسوائی کی پستیوں سے نکال کر ترقی و عزت کی شاہراہ پر گامزن کردیا‘‘۔ دین اسلام کے اس عظیم نظام اخوت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مشہور انگریز عالم جان ڈیون پورٹ لکھتے ہیں ’’…محمدؐ جیسے ایک عالم عرب نے اپنے ایک چھوٹے منتشر ، برہنہ اور افلاس زدہ ملک کو ایک متحرک اور منظم معاشرے میں تبدیل کردیا اور روئے زمین کی اقوام کے درمیان انہیں نئے صفات اور تازہ اخلاق کے ساتھ متعارف کرایا اور تیس سال سے کم عرصے میں اس طرز و روش نے حاکم قسطنطنیہ کو مغلوب کردیا اور سلاطین ایران کو نیست و نابود کردیا، شام اور مصر کو مسخر کیا اور ان کی فتوحات اوقیانوس اطلس سے لے کر دریائے خرز اور سیون تک جا پہنچیں‘‘ (بحوالہ تفسیر نمونہ جلد سوم صفحہ 43) ظلمت کدہ عالم کو نور بخشنے والا نبی یعنی نبی آخر الزماں ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ہم سب میلاد النبیﷺکی خوشیاں عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیںگھروں، محلوں، علاقوں ، بازاروں اور گلیوں کو برقی قمقموں سے روشن و منور کرتے ہیں اور ذکر میلاد فخر عالمﷺ کی محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔ یہ دن عالم انسانیت کے لیے عظمت و برکات والا دن ہے چونکہ اس دن حبیب کردگار ﷺ کی آمد ہوئی ہے جس کا مقصد وحید بھٹکی ہوئی انسانیت کو رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ لہٰذا میلاد مصطفیﷺ کے موقع پر خوشی و مسرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ مثبت افکار ، اخلاقی و انسانی ملکات سے اپنے کردار کو مزین کرنا اور باطل عقائد و بیہودہ خصائل اور بری حیوانی و نفسانی عادات کی آلودگی سے پاک کرنے کی سعی و کوشش بھی کرنی چاہیے۔ میلاد النبیﷺ ہی کا صدقہ ہے کہ آج مسلمان کو رب کی توحید، رب کا کلام یعنی قرآن مجید، رب کا دین یعنی دین اسلام اور رب کے احکامات یعنی دین اسلام کی تعلیمات ملیں۔ آپﷺ کی تشریف آوری اس لیے ہوئی تھی کہ کذب اور جھوٹ کی جڑوں کو کاٹ کر صدق و سچائی کے نظام کو قائم کیا جائے، ظلم و جور میں ڈوبی ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیا جائے ، لالچ اور بخل سے نجات دلاکر ایثار و سخاوت کو انسانی کردار کا جزو لاینفک بنادیا جائے ۔بے صبری کے معائب سے آگاہ کرکے انسان کو صبر و استقامت کے حقائق و محاسن سے واقف کروایا جائے۔بزدلی سے نفرت دلاکر انسان کو شجاعت و بہادری کی طرف راغب کیا جائے، بے حیائی کا خاتمہ کرکے شرم و حیا کے زیور سے انسان کو زینت بخشی جائے ، وعدہ خلافی کو وعدہ وفائی سے متبدل کرکے انسانی رشتوں کو مضبوط و مستحکم کیا جائے ، مصالحت پسندی کو دور کرکے حق گوئی و بے باکی کے جذبہ کو فروغ دیا جائے، خیانت سے نفرت دلاکر انسان کو امانت کا علمبردار بنایا جائے، انارکی اور انتشار کی فضاء کو زائل کرکے اتحاد ، اخوت و بھائی چارگی کے حسین جذبات کو بڑھاوا دیا جائے، نفرتوں اور دشمنیوںکی آگ کو ٹھنڈا کرکے محبتوں کی فضاء ہموار کی جائے الغرض انسانی کردار کو تمام برائیوں، خطائوں اور سیئات سے پاک کرکے تمام اچھائیوں خوبیوں اور حسنات سے متصف کیا جائے جو خانگی اور معاشرتی زندگی کو خوشحال بنانے کے لیے از حد ضروری ہے۔ اب ہم ذرا مسلم معاشرے پر ایک سرسری نظر ڈالیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا ہم میلاد النبیﷺ کے پیغام کو سمجھ پائے ہیں کیا ہم تعلیماتِ مصطفی ﷺپر عمل کرپائے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے۔ آقائے نامدار رسول عربی ﷺ کی تعلیمات کو اگر ہر مسلمان اپنے لیے حرز جان بنالیتا تو دنیا جنت نشان بن گئی ہوتی ۔ اگر کوئی اسلام کے خلاف کوئی اعتراض کرتا ہے تو ہم آگ بگولہ بن جاتے ہیں، احتجاجی جلسے منعقد کرتے ہیں، احتجاجی ریالیاں نکالتے ہیں ، مذمتی بیانات جاری کرتے ہیںاور جب ہم خود اور ہمارے افراد خاندان تعلیمات اسلامی کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو اس وقت ہماری حرارت ایمانی کیوں سرد ہوجاتا ہے؟ کیوں ایمانی جذبات وقوت میں ضعف آجاتا ہے؟ مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری تھی کہ اغیار کو تعلیمات اسلام سے واقف کروائیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم خود اور ہماری نوجوان نسل کی اکثریت تعلیمات اسلامی سے ناواقف ہے۔ قرآن حکیم واضح الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے کہ دنیا بالعموم اور جزیرۃ العرب بالخصوص آپ ﷺکی ولادت سے قبل صریح ضلالت و گمراہی اور معنوی آلودگیوں میں غرق تھا۔ میلاد مصطفیﷺ کا اہم مقصد اور اصل ہدف یہی ہے کہ گھٹیا مفادات ، شہوات اور ہوا و ہوس کے سبب صدیوں سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو بدبختی کے ظلمات سے نکال کر رشد و ہدایت کی شاہراہ پر گامزن کردیاجائے ۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے رب کائنات نے اپنے حبیب مکرمﷺ کو ہدایت کا نیر تاباں بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ہے تاکہ تمام لوگ رب کی نعمتوں اور عنایتوں کے مستحق بن جائیں ۔ یہ ہماری کم فہمی و کج فکری کی ہی دلیل ہوگی اگر ہم میلاد النبیﷺ اس پیغام کو سمجھے بغیر اور اس پر عمل کیے بغیر خوشیاں منائیں۔ میلاد النبیﷺ کے پیغام کو نہ سمجھنے اور بداعمالیوں کے ارتکاب کا ہی تکوینی نتیجہ ہے کہ آج ہماری مادی زندگی بہت دلپذیر اور زیبا ہونے کے باوجود مصائب، ناخوشگوار واقعات ، سخت مشکلات اور دردناک حوادثات کا شکار ہے اور ہم ہر محاذ پر نہ صرف پراگندہ اور منتشر نظر آرہے ہیں بلکہ بڑی تیزی سے تنزل و انحطاط کا شکار ہورہے ہیں۔ سزائوں کا راست تعلق انسان کے جرائم سے ہوتا ہے لہٰذا ہمیں میلادالنبیﷺ کے موقع پر خلوص دل اور حسنِ نیت سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے رجوع الی اللہ ہوکر خالق کونین اور حبیب دائودﷺ سے اپنا رشتہ و تعلق مضبوط و مستحکم بنالینا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت کی سرخروی ہمارا مقدر بن سکے۔تعلیمات اسلامی کے مطابق اپنے کردار میں تغیر اور معاشرے میں انقلاب لائے بغیر میلاد النبیﷺ کی خوشیاں منانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنی ناکامی و نامرادی پر خوشیاں منارہا ہو۔میلاد النبیﷺ کے مبارک و مسعود موقع پر قلبی جذبات، خوشیوں، فرحتوںاور مسرتوں کا اظہار کرنا یقینا بڑی سعادتمندی ہے۔ لیکن میلاد النبی ﷺ کے شایان شان خوشی منانے کا تقاضہ یہ ہے مسلمان ظاہری خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کے ظاہرو باطن کو سرور کائنات ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھال لے اور اسلامی کلچر کو فروغ دے چونکہ اسی پر مسلمان کی دنیوی و اخروی فلاح و نجات کا مدار ہے۔ اللہ تعالی اور اس کا رسولﷺ اس شخص سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جو دعوی محبت کرنے کے باوجود اپنی پوری زندگی نظام مصطفی ﷺکے خلاف گزاردے۔آیئے میلاد النبی ﷺ کے ان پر مسرت لمحات میں نبی رحمتﷺ سے عہد وفا کریں کہ اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے ، زبان، نسل ، دولت، منصب، قومیت، وطنیت اور طبقہ واریت کے تمام باطل امتیازات کو مٹاتے ہوئے، کجریوں اور شیطانی وساوس کو بالائے طاق رکھ کر فروعی اختلافات کو کم کرتے ہوئے عالمی امن و سلامتی، صلح و آشتی ، اخوت و بھائی چارگی ، محبت و رواداری کے فروغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیںگے چونکہ ان اقدار اور خوبیوں کی آج انسانیت کو بہت سخت ضرورت ہے۔ حضور اکرمﷺ کی محبت، تعظیم اور توقیر حقیقی یہی ہے کہ ہر مسلمان حضورﷺکی اطاعت و پیروی کو اپنا شعار بنالے اور آپ ﷺ کی دائمی غلامی میں آجائے اور یہ اسی وقت ہوگا جب ہم نظام مصطفیﷺ کو مکمل طور پر اپنی زندگی میں نافذ کرلیں گے اور یہی میلاد مصطفیﷺ کا حقیقی پیغام ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔