از قلم: محمد عارف رضا نعیمی ارشدی مرادآبادی، بانی ہمدرد مسلم نعیمی کمیٹی
8191927658
الھم لک الحمد یا اللہ ﷻ
والصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ﷺ
میلاد مصطفی
نصیب چمکے ہیں فرشیوں کےکہ عرش کے چاند آرہے ہیں
جھلک سے جن کی فلک ہے روشن وہ شمس تشریف لارہے ہیں
نثار تیری چھل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سواۓ ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
(از حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ )
یوم میلاد مصطفی کاٸنات انسانی کا ایسا تاریخ ساز اور عظیم المرتبت دن ہےکہ ایسا دن چشم فلک نے نہ کبھی دیکھا اور نہ قیام قیامت تک وہ کھبی دیکھ سکتا ہے کیونکہ اس دن خزانٸہ قدرت کا سب سے عظیم المرتبت شہکار قدرت وجود پزیر ہوا جسے مولی تعالی نے ہزارہا ہزار سالوں سے غیب کے پردے میں چھپا کر رکھاتھا لہذا تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی پیداٸش کا ذکر اور اس پر خوشی منانا اس پر محفل میلاد سجانا جبکہ اسمیں کوٸی خلاف شرع بات نہ ہو یقينا جاٸز و روا بلکہ باعث خیر و برکت نزول رحمت کا سبب ہے بریں بنا
کائنات ہست وبود میں خدا تعالیٰ ﷻ نے بے حدوحساب عنایات واحسانات فرمائے ہیں۔ انسان پر لاتعداد انعامات و مہربانیاں فرمائی لیکن کبھی کسی پر احسان نہیں جتلایا، اس ذات رؤف الرحیم نے ہمیں پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور احسنِ تقویم کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائک بنایا ہمیں ماں باپ، بہن بھائی اور بچوں جیسی نعمتوں سے نوازا۔ غرضیکہ ہزاروں ایسی عنایات جو ہمارے تصور سے ماورا ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں لیکن بطور خاص کسی نعمت اور احسان کا ذکر نہیں کیا
لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جب حریم کبریائی سے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سے سرفراز کیا تواس پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo (سورۃ آل عمران 3 : 164)
ترجمہ: ”بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے“۔
درج بالا آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ :
امت مسلمہ پر میرا یہ احسان، انعام اور لطف وکرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری ہی جانوں میں سے تمہارے لئے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدلنے، بگڑے ہوئے حالات سنوارنے اور شرف وتکریم سے نوازنے کیلئے تاکہ تمہیں ذلت وگمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عظمت وشرفِ انسانیت سے ہمکنار کر دیا جائے۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانہ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع واقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بھی عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدرومنزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے لگے۔
اب یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا فرض ہے کہ وہ ساری عمر اس نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے اور خوشی منائے جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے۔
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَo (يونس 10 : 58)
ترجمہ: ”آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل سے اس کی رحمت سے (جواُن پر نازل ہوئی) اس پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ تو ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بڑھ کر ہے“۔
جب ہم اپنی زندگی میں حاصل ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں تو وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت عطا ہونے پر سب سے بڑھ کر خوشی منائی جائے اور اس خوشی کے اظہار کا بہترین موقع ماہ ربیع الاوّل ہے۔
کہیں فرمایا
وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ
اپنے رب کی نعمتوں کا خوب خوب چرچا کرو
(سورہ والضحی پارہ 30 آیت 11)
ذرا بتاٶ تو سہی کیا جان کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ولادت باسعادت سے بڑھکر بھی کوٸی نعمت ہوسکتی ہے لہذا معلوم ہوا کہ اس پر خوشی بھی سب خوشیوں سے منفرد ہونا چاہیۓ کہ
لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
اگر تم احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو سن لو میرا عذاب سخت ہے
(ابراہیم پ 14 آیت 7)
احادیث مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم بھی اس عنوان سے مملو ہیں
چند دلائل و شواھد ملاحظہ ہوں
عَنْ عُرْوَةَ في روایة طویلة قَالَ: وَثُوَیْبَةُ مَوْلَاةٌ لِأَبِي لَهَبٍ، کَانَ أَبُوْ لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمَّا مَاتَ أَبُوْ لَهَبٍ أُرِیَهٗ بَعْضُ أَهْلِهٖ بِشَرِّ حِیْبَةٍ، قَالَ لَهٗ: مَاذَا لَقِیْتَ؟ قَالَ أَبُوْ لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ أَنِّي سُقِیْتُ فِي هٰذِهٖ بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَةَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی اور ابو لہب نے اُسے آزاد کر دیا تھا، اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مر گیا تو اُس کے اہل خانہ میں سے کسی کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکھایا گیا۔ اس (دیکھنے والے) نے اُس سے پوچھا: کیسے ہو؟ ابو لہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اِس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اُس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
اِسے امام بخاری، امام عبد الرزاق رحمھما اللہ نے روایت کیا ہے
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، جلد 2 صفحہ 764 الرقم: 4813، وعبد الرزاق في المصنف، 7/478، الرقم: 13955
’’شارح بخاری حافظ ابن حجرعسقلانی نے امام سہیلی رحمھما اللہ کے حوالے سے فتح الباری میں یوں بیان کیا ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ابو لہب مر گیا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت برے حال میں دیکھا اور یہ کہتے ہوئے پایا کہ تمہاری جدائی کے بعد آرام نصیب
نہیں ہوا بلکہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں، لیکن جب پیر کا دن آتا ہے۔ تو میرے عذاب میں تخفیف کر دیا جاتا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ پیر کے دن ہوئی تھی اور جب ثویبہ نے اس روز ابو لہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خبر دی تو اس نے (ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا۔‘‘
ذکره العسقلاني في فتح الباري، 9/145.و عمدة القاری جلد 2 95
امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخ-ل فرمادے
( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )
امام ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں کہ ابلیس چار بار بلند آواز سے رویا ہے پہلی بار جب اللہ نے اسے ملعون قرار دیا دوسری بار جب اسے زمین پر بھیجا گیا تیسری بار جب تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم جلوہ فگن ہوۓ یعنی میلاد النبی پر
چوتھی بار جب سورہ فاتحہ نازل ہوٸی
(البدایہ والنہایہ جلد 2 صفحہ 570 )
لہذا معلوم ہوا میلاد پر رونا بحث و مباحثہ کرنا چیخنا چلانا واویلا مچانا اور اسکی مخالفت کرنا ابلیس لعین کا طریقہ کار ہے مومن تو اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی پیداٸش پر خوشیاں مناتا ہے
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الاِثْنَیْنِ فَقَالَ: فِیْهِ وُلِدْتُ وَفِیْهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
وفي روایة: أُنْزِلَتْ عَلَيَّ فِیْهِ النُّبُوَّةُ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.
’’حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسی روز میری ولادت ہوئی اور اِسی روز میرے اُوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاـ: ’’اِسی روز مجھے نبوت (یعنی بعثت) سے سرفراز کیا گیا۔‘‘ اِسے امام احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب استحبابِ صیام ثلاثة أیام من کل شهر، 2/819، الرقم: 1162، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/296، 297، الرقم: 22590، 22594، والنسائي في السنن الکبری، 2/146، الرقم: 2777)
اس حدیث شریف سے ثابت ہو گیا کہ تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے پیر کے دن کا روزہ رکھکر خود اپنے میلاد کا اہتمام فرمایا لہذا ثابت ہو گیا کہ دن مقرر کرکے یادگار منانا سنت ہے
عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنِّي عِنْدَ ﷲِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، وَإِنَّ آدَمَ علیہ السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِیْنَتِهٖ، وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذَالِکَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِیْمَ، وَبِشَارَةُ عِیْسٰی بِي، وَرُؤْیَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ وَکَذَالِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِیِّیْنَ تَرَیْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
وفي روایة عنہ: قَالَ: إِنِّي عَبْدُ ﷲِ وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ فذکر مثلہ وزاد فیه: إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم رَأَتْ حِیْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَائَتْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/127128، الرقم: 16700، 16712، وابن حبان في الصحیح، 14/313، الرقم: 6404، وابن أبي عاصم في السنة، 1/179، الرقم:409، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6/68، الرقم: 1736، والطبراني في المعجم الکبیر، 18/252، 253، الرقم: 629، 630، والحاکم في المستدرک، 2/656، الرقم: 4175، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/134، الرقم: 1385.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اُس وقت سے آخری نبی لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں: میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں، اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘
اِسے امام اَحمد نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ﷲ تعالیٰ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پھر راوی نے مذکورہ باب حدیث کی مثل حدیث بیان فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا: ’’بے شک رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت نور دیکھا جس سے شام کے محلات تک روشن ہو گئے۔‘‘
اِسے امام اَحمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے
اس حدیث پاک سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ حضور تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم خود اپنا میلاد پڑھا اپنی پیداٸش کا ذکر کیا اسی کا نام تومیلاد النبی ہے
عُبَیْدِ ﷲِ بْنِ عَائِشَةَ رضی الله عنهما قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِیْنَةَ … فَتَلَقَّی النَّاسَ وَالْعَوَاتِقَ فَوْقَ الْجَاجِیْرِ، وَالصِّبْیَانُ وَالْوَلَائِدُ یَقُوْلُوْنَ:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعِ
وَأَخَذَتِ الْحَبَشَةُ یَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِهِمْ لِقُدُوْمِ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَرَحًا بِذَالِکَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَمُحِبُّ الدِّیْنِ الطَّبَرِيُّ.
أخرجه ابن حبان في الثقات، 1/131، وابن عبد البر في التمهید، 14/82، والعسقلاني في فتح الباري، 7/261، 8/129، والعیني في عمدة القاري، 17/60، ومحب الدین الطبري في الریاض النضرة، 1/480.
’’حضرت عبید ﷲ بن عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے … تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں اور عورتوں کو (اپنے استقبال کے لیے) مکانوں کی چھتوں پر پایا جبکہ (مدینہ منورہ کے) بچے اور بچیاں یہ پڑھ رہے تھے:
’’ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند (یعنی چہرۂ والضحیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) طلوع ہو گیا، اور ہم پر اس وقت تک شکر ادا کرتے رہنا واجب ہو گیا جب تک کوئی ﷲ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا دعوت دے رہا ہے (یعنی جب تک کوئی بھی خدا کا نام لینے والا باقی رہے گا)۔‘‘
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا جشن منانے کی خاطر حبشہ کے لوگ اپنے آلات حرب کے ساتھ رقص کرتے رہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان نے ’الثقات‘ میں، ابن عبد البر، عسقلانی اور محب طبری نے روایت کیا ہے
تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی آمد پر خوش ہونا خوشی منانا اھل ایمان کا طریقہ ہے جب مدینہ میں آنے کی خوشی مدینے والوں نے مناٸی تو دنیا میں تشریف لانے کی خوشی تمام دنیا کے مومنین کو منانا چاہیے یہی ایمان کا تقاضہ ہے
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا مِنَ الْیَهُوْدِ قَالَ لَهٗ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، آیَةٌ فِي کِتَابِکُمْ تَقْرَئُوْنَهَا لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الْیَهُوْدِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا، قَالَ: أَيُّ آیَةٍ؟ قَالَ: {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْـلَامَ دِیْنًا} ]المائدة، 5:3[، قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَالِکَ الْیَوْمَ وَالْمَکَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِیْهِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ یَوْمَ جُمُعَةٍ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک یہودی نے اُن سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی آیت؟ اُس نے کہا: {آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا}۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب زیادة الإیمان ونقصانه، 1/25، الرقم: 45، وأیضًا في کتاب المغازي باب حجة الوداع، 4/1600، الرقم: 4145، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن، باب قوله: الیوم أکملت لکم دینکم، 4/1683، الرقم: 4330، وأیضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6/2653، الرقم: 6840، ومسلم في الصحیح، کتاب التفسیر، 4/2313، الرقم: 3017، والترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب من سورة المائدة، 5/250، الرقم: 3043، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان، باب زیادة الإیمان، 8/114، الرقم: 5012.
قارئين گرامی ذرا غور و فکر کجیۓ سورہ ماٸدہ کی آیت الیوم اکملت لکم اس کے نزول کے دن عید اور خوشی منانا حدیث شریف سے ثابت شدہ ہے تو جس دن وہ رسول کریم تشریف لاۓ ہوں جن پر قرآن نازل ہوا اس دن کو عید کہنا اس دن خوشی منانا کیونکر ناجائز ہو سکتا ہے
علامہ صاوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ تضمن جواب عمر انھم صبیحتھا عیدا
یعنی عمر کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس دن کو عید بنا لیا ہے
صاوی علی الجلالین جلد اولی صفحہ 251
نثار تیری چھل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سواۓ ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں