"توہینِ رسالت کے مرتکب اہلِ مغرب سے ہوں؛ یا کسی خطے سے؛ ان کے مکر و فریب کے غبار چھٹ جائیں گے…محبوب پاک ﷺ کی عظمتوں کی قندیل طاقِ قلبِ مومن پر فروزاں رہے گی… "
ازقلم: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ اُمید کی کرنیں دَم توڑ رہی تھیں۔ معاشرتی ناہمواریوں نے کھلتی کلیوں کو کمھلا دیا تھا۔ ماؤں کے کلیجے چھلنی تھے۔ درندوں نے اپنی ہی بچیوں کو ماؤں کی گودوں سے چھین کر زمیں کی گہرائیوں میں زندہ دفن کر دیا تھا۔ بچیوں کی گھٹی گھٹی چیخوں اور مدھم پڑتی نبضوں نے بھی بے رحمی کے پتھروں کو موم کا جگر عطا نہیں کیا۔ احساسِ انسانیت مر چکا تھا۔ شرک نے عقیدے کی بزم کو ویران کر ڈالا تھا۔ معبودانِ باطلہ کے آگے جبیں کا وقار لُٹ رہا تھا۔ بے حیائی کا ماحول تھا۔ شراب عام تھی۔ طہارت عنقا تھی۔ فکر میلی تھی اورنظر پراگندہ۔ کردار کی چمک ماند تھی۔ افکار پر برسوں کے غبار نے بسیرا کر رکھا تھا۔ انسانی قبا تار تار تھی۔ حیوانی خصلتیں تمغۂ افتخار تھیں- طاقتور ،غریب کی عزت کا سوداگر تھا۔ بازارِ دُنیا میں عصمتیں نیلام تھیں۔ کوئی دُکھی دلوں کا سہارا نہ تھا۔ گھٹی گھٹی فضا تھی۔ کائنات بہار کو ترس رہی تھی۔
یہ نظامِ قدرت ہے؛ اندھیروں کے بعد اُجالوں کا دور آتا ہے۔ خزاں کے بعد بہار۔ ظلم کے بادل چھٹتے ہیں تو اُجالوں کی کرنیں نمودار ہوتی ہیں۔ انسانیت کے لیے سب سے مہیب دور کیا آیا کہ رحمت الٰہی جوش پر آئی۔ ایک ایسی صبح نمودار ہوئی؛ جس نے ساری انسانیت کو نہال کر دیا۔ انھیں بھیجا گیا جن کی آمد کا سبھی کو انتظار تھا۔ جن کے لیے بزمِ کائنات سجائی گئی تھی، جس ذات کے لیے کونین کی تخلیق ہوئی تھی۔ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
’’اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر۔‘‘
(سورۃالبقرہ:آیت نمبر۸۹)
۱۲؍ربیع الاول شریف کی صبح تھی۔ جب انسانیت کا نصیبہ بیدار ہو گیا۔ایسی صبح کبھی نہ آئی، جس کے دامن سے احسان کا سویرا طلوع ہوا۔ زمانہ پُر نور ہوگیا۔ بزم ہستی نکھر گئی۔ جانِ رحمت کے نغمے بلند ہونے لگے۔ فلک کی رفعتوں اور زمیں کی پہنائیوں میں شہرہ ہونے لگا۔ رفعتِ ذکر پاک کا یہ عالم کہ رب کریم شان بیان کررہا ہے، وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ سے مقامِ محبوبیت کی اُن رفعتوں کو باور کرایا جا رہا ہے؛ جہاں عقل خام کی رسائی نہیں۔فکر انسانی رفعتِ ذکر کا ادراک نہیں کرسکتی۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کیا آئے انقلاب آگیا۔ پتھر دل موم ہونے لگے۔ توحید کے نغمے گونجنے لگے۔ خزاں کے بادل چھٹ گئے۔ آلودہ دل مثلِ آئینہ ہوگئے۔اللہ اللہ ; ؎
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
(رضاؔ بریلوی)
کردار دَمکنے لگے۔ افکار چمکنے لگے۔ اطوار مہکنے لگے۔ مُرجھائی کلیاں کھِل اُٹھیں۔ ٹوٹے دل جُڑنے لگے۔ ڈالیاں جھولنے لگیں۔ کلیاں کھلنے لگیں۔ صبحِ اُمید نمودار ہوگئی۔ شام غم چھَٹ گئی۔ پژمردہ چہرے گلاب ہوگئے۔ ذرے آفتاب ہوگئے۔ قطرے گُہر بن گئے۔انسانیت کو رُسوا کرنے والے، عزتوں کے سفیر بن گئے۔ رہزن، رہبر بن گئے۔ تھمی تھمی ہوائیں مشک بار ہو گئیں۔ خزاں کے نشانات مٹ گئے۔ گلشن ہرے بھرے ہوگئے۔ بلبلیں چہکنے لگیں۔ قمریاں نغمہ سرا ہوگئیں۔ توحید کے نغمے بلند ہونے لگے۔ پستیوں میں بسنے والے ہم دوشِ ثریا ہوگئے ؎
اِک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
خاک کے ذرّوں کو ہمدوشِ ثریا کردیا
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ نور کے باڑے بٹنے لگے۔ پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ایسی کامل کہ اب کسی نبی کی ضرورت باقی نہ رہی۔ انبیا کا آنا جانا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جلوہ گری کے لیے تھا۔ وہ آئے تو کائنات کا نکھار بن کر، بزمِ ہستی کی بہار بن کر، کونین کا وقار بن کر، غمگین دلوں کا قرار بن کر، قیامت تک انھیں کا سکہ چلے گا، اولین وآخرین انھیں کے کرم خاص سے حصہ پائیں گے۔ ؎
رُخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسراآئینہ
نہ کسی کی بزم خیال میں نہ دوکانِ آئینہ ساز میں
فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزم محشر کا
کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
رضاؔ بریلوی نے اپنے آفاقی سلام میں رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’جانِ رحمت‘‘ اور ’’شمع بزمِ ہدایت‘‘ کہا، لاریب! خوب کہا۔ اس لیے کہ رحمت کی وہ جان ہیں۔ وہ کیا آئے کہ رحمتیں چھا گئیں۔ زحمت کا دور رُخصت ہوا۔ بہار ہی بہار اور رونق ہی رونق۔
بزم ہدایت کی آخری شمع ہیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم۔ خاتم الانبیا کے نور سے اولین وآخرین روشن ہو رہے ہیں۔ بزمِ محشر انھیں کے نورِ اقدس سے منور ہوگی۔ کونین میں بہاریں انھیں کے وجودِ اقدس کا صدقہ ہیں۔ ان بہاروں سے جَلنے والے جلتے رہیں؛ عظمتوں کا نغمہ بلند ہوتا رہے گا- توہینِ رسالت کے مرتکب اہلِ مغرب سے ہوں؛ یا کسی خطے سے؛ ان کے مکر و فریب کے غبار چھٹ جائیں گے- ذکرِ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے دل و نگاہ جگمگائیں گے؛ محبوب پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عظمتوں کی قندیل طاقِ قلبِ مومن پر فروزاں رہے گی- ہر صبح ان کے رفعتِ شان کا نیا نظارہ ایماں کو تازگی بخشے گا-