امت مسلمہ کے حالات

بابری مسجد کی شہادت سے سبق


6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اس سے پہلے آر ایس ایس کی سیاسی ونگ "جن سنگ” جو بعد میں "بی جے پی” بن گئی ایک فرقہ پرست نفرتی پارٹی ہونے کی وجہ سے 90 فیصد ہندوستانیوں کے لیے ناپسندیدہ پارٹی تھی۔ اور اکثر ہندو عوام میں عدم مقبولیت کی وجہ سے جن سنگ پارٹی یعنی بی جے پی سے دو چار ایم پی ہی ہواکرتےتھے۔
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے درمیان خاص کر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دنگا و فساد پہلے بھی ہو تےتھے۔ لیکن حکومت اور پرشاشن ایک حد تک غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتی تھی۔ حالانکہ اس زمانے میں بھی جو پولیس والے اور افسران آر ایس ایس کے اسکولوں کے پڑھے ہوئے تھے، وہ یکطرفہ طور پر کاروائی کرتے تھے اور ان کے نشانے پر مسلمانوں کے ساتھ سکھ، عیسائی اور دیگر اقلیتیں بھی ہوا کرتی تھیں۔
گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگی اور پابندی ہٹنے کے بعد آر ایس ایس نے حکومت کے ساتھ ایک حد تک مثبت رویہ اپنایا اور بڑے پیمانے پر عام ہندوؤں کو بالخصوص "اپر کاسٹ ہندوؤں” کو گولوالکر کی فکر سے متاثر کرنے کے لیے اعلی کوالٹی کے اسکول و کالج کھولے، جہاں زیر تعلیم بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ آر ایس ایس کے ہندوتوادی، فرقہ وارانہ، مسلم دشمنی سے آراستہ و پیراستہ کیا جارہا ہے۔
یہاں تک کہ 1992ء آتے آتے، آر ایس ایس سے متاثر ذہن و فکر والے پولیس اور پولیس افسران اور سول سروسز افسران کے ساتھ ساتھ ججوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا، اور فرقہ پرست ذہنیت کے حاملین کی تعداد بھی کافی بڑھی۔
حالات کو اپنے حق میں سازگار دیکھ کر بی جے پی کے سب سے بڑے قد آور نیتاؤں میں سے چند جیسے لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، وغیرہ جیسے شدت پسند ہندوتوادی نیتا فرقہ پرستی کا زہر ہندوؤں میں پھیلانے کے لیے نکل پڑے۔ نتیجتاً 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید ہوگئی۔ ساتھ ہی اس کے بعد بھڑکے دنگوں میں ہزاروں مسلمان بھی شہید ہوئے اور ہزاروں لوگوں کو قید و بند کیا گیا۔ ممبئی وغیرہ جیسے بڑے شہروں میں مسلمانوں کے ہزاروں گھر توڑ دیے گئے، ان کی صدیوں کے حرفت و صنعت اور تجارت کے مراکز کو ختم کیے گئے۔ ایسا ملک بھر کے بڑے بڑے مسلم صنعتی علاقوں میں دیکھنے کو ملا اور آج بھی اس پالیسی پر کام جاری ہے۔
واضح رہے کہ اب تو یہ حال ہے کہ مسلمانوں پر ظلم کرنا، انہیں شہید کرنا، ان کے گھروں کو توڑنا، ان کے کاروبار پر حملہ کرنا روزمرہ کی چیز ہوگئی ہے۔اور یہ نفرتی کام بی جے پی کی حکومت میں پرموشن کا ذریعہ بن گیا ہے۔اور یہ اس سینہ زوری کے ساتھ ہو رہا ہے کہ اس کا مشاہدہ انکھیارے تو کر ہی رہے ہیں۔ یہ ظلم و جبر اتنے واضح ہیں کہ اندھے بھی اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کچھ لوگوں کو کچھ خاص نظر نہیں آرہا ہے۔ تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے؟
واضح رہے کہ عیار و چالاک یہودیوں کا ایک گروپ.
جنہوں نے ابراہمن سے بدل کر اپنا نام برہمن رکھ لیا ہے۔ جو راجہ مہاراجہ اور مہاراج بن کر سینکڑوں سال تک بر صغیر ہند پر حکومت کی تھی۔ ان لوگوں نے 1857 سے ہی آزادی کی جدوجہد سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ اور جب 1947 کو آزادی ملی تو سب سے بڑے مجاہد آزادی موہن کرم چند گاندھی کے قتل اور ان کے قاتل گوڈ سے کی پوجا سے فرضی دیش بھکتی کی ابتدا کی۔اور اس جھوٹی دیش بھکتی کا خوب پرچار کیا۔ اور گودی میڈیا نے موجودہ وقت میں انہیں سب سے بڑا دیش بھکت بنا دیا ہے۔
اس کے برعکس مسلمانوں نے 1857 سے 1947 تک جنگ آزادی میں پیش قدمی کی اور پیش پیش رہے۔ ہزاروں علماء کرام شہید ہوئے۔ لاکھوں مسلمانوں نے، اور لاکھوں ہندوؤں نے اپنی جان اور مال کی قربانیاں دیں۔ ان بے بہا قربانیوں کے بعد ہی ہندوستان آزاد ہوا۔ آزادی کے بعد یہ فرضی دیش بھکت برہمن اور برہمن وادی فکر کے ہندوتوا والوں نے آہستہ آہستہ پورے ملک میں نفرت و دہشت، ظلم و جبر، اور پھوٹ ڈالو راج کرو کے نظریہ کو بروئے کار لا کر مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا۔ ان کے املاک کو تباہ کیا۔ اور پھر انہیں ہی جیلوں میں ڈالا۔
دوسری طرف
ہم سینکڑوں مسلک اور فرقوں میں بٹ کر اتنا کمزور ہوگئے کہ آج ہندوستان کے مسلمان، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تعلیم و ترقی میں ہریجنوں سے بھی پیچھے ہو گئے ہیں۔
جانے ان جانے میں ہم جذبات کے رو میں بہ کر کبھی علاقہ کے نام پر کبھی برادری کے نام پر اور کبھی مسلک کے نام پر جہالت، تشدد اور نفرت کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔
ہم وھن زدہ ہیں۔ ہماری عادت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ نفرت، انتشار، فرقہ پرستی اور ایک دوسرے کو رسوا کرنے ہی میں ہمیں ذہنی لذت ملتی ہے۔اور ہم اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جبکہ اگر کوئی شخص تعلیم، ترقی اور اس کے لیے اتحاد و یکجہتی کی بات کرتا ہے۔ تو ہم ایسے لوگوں کو دقیانوسی فکر کے حامل کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر واٹس ایپ کے کسی گروپ میں ایک سو لوگ ہیں۔ آپ اس میں کوئی فرقہ پرستی کا شگوفہ چھوڑیں تو 90 فیصد لوگ سوال و جواب کرنا شروع کر دیں گے۔ پھر اسی گروپ میں آپ تعلیم و ترقی کے بارے میں کوئی پوسٹ شیئر کریں۔ تو پانچ سے دس فیصد لوگ ہی اس میں دلچسپی دکھائیں گے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ ہمارے ذہن و فکر کو نفرتوں کے ذریعہ ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ ہم مسلمان جو امن پسند تھے اور امن و سلامتی کےساتھ تدبر، تفکر، اور منصوبہ سازی ہمارا طرۂ امتیاز تھا۔ وہ بدل گیا ہے۔ اور اب ہمارا نوجوان طبقہ جس میں اکثریت نیم خواندہ لوگوں کی ہے جلسہ، جلوس، نعرہ بازی، بیان بازی، ہو ہلًہ، ہڑدنگ اور غیر منظم احتجاجی مظاہرے ان کی فطرت بن گئی ہے۔ نتیجے میں ہمارے نوجوان شہید بھی ہوتے ہیں اور سلاخوں کے پیچھے بھی رہتے ہیں۔ مزید المیہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی قائد نہیں۔ ملکی سطح پر تو چھوڑییے گاؤں کی سطح پر بھی ہمارا کوئی قائد نہیں ہے۔ یا ہم صحیح معنوں میں کسی کو قائد تسلیم ہی نہیں کرتے۔ نتیجے کے طور پر ہم کٹی پتنگ کی طرح ہوا کے دوش پر گرتے پڑتے ذلیل ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ہم قتل بھی ہوتے ہیں تو کوئی چرچا نہیں کرتا۔ اور چونکہ ہم اکثر ہجومی تشدد کا شکار ہوتے ہیں یا پولیس کی گولیوں سے مارے جاتے ہیں اس لیے نہ ہی کسی کو غم ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو ترس اتا ہے۔ بلکہ غیروں کے ساتھ بعض اوقات حسد اور رنجش کی وجہ سے اپنے بھی ہماری تباہی سے خوش ہوتے ہیں۔
یہ وہ اسباب ہیں جس سے ہماری منزل ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

غلط روی سے منازل کے بعد بڑھتے ہیں
مسلمانو روش کارواں بدل ڈالو

سیاست میں بھی ہم آر ایس ایس کی سازشوں کے شکار ہو کر ان کی مرضی کے مطابق بات کرنے لگے ہیں۔ یعنی وہ ہندو ہندو کر تے ہیں۔ تو ہم اس کی ضد میں آکر مسلم مسلم کہتے ہیں۔ اور سیاسی اعتبار سے یہ مسلمانوں کے لیے بہت ہی تباہ کن فکر ہے۔

تحریر: محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے