امت مسلمہ کے حالات

"تم پر بدترین حاکم مقرر کیے جائیں گے” حدیث، ترجمہ، اور دلیل

حدیث
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کما تکونون کذٰلک یُوَلّٰی علیکم”
(شعب الإيمان للبيهقي، حدیث: ٧٤٨٧)
ترجمہ:
"جیسے تم ہوگے، ویسے ہی تم پر حکمران مقرر کیے جائیں گے۔”
دلیل
یہ حدیث ہمیں یہ اصول سکھاتی ہے کہ قوم کے اعمال حکمرانوں کی نوعیت پر اثر ڈالتے ہیں۔ جب لوگ نیکوکار ہوں، حق پر قائم ہوں اور اجتماعی بھلائی کے لیے کام کریں تو ان پر اللہ نیک حکمران مسلط کرتا ہے، لیکن جب وہ اخلاقی زوال، فتنہ و فساد، اور دین سے دوری میں مبتلا ہوں تو ان پر بدترین حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ”
(سورة الرعد: 11)
ترجمہ: "بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے۔”

مضمون: موجودہ حالات پر غور و فکر
آج کا زمانہ آزمائشوں اور فتنوں کا ہے۔ ہمارے شہر، گاؤں، اور یہاں تک کہ ہمارے روحانی مراکز تک ان فتنے اور کشیدگیاں پہنچ چکی ہیں۔ دہلی، کاشی، متھرا، جامع مسجد، بہرائچ، اور اجمیر جیسے مقامات، جو کبھی امن و سکون کے مراکز تھے، آج نفرت، فتنہ، اور زوال کے نشانے پر ہیں۔
دہلی، کاشی، اور متھرا:
یہ وہ جگہیں ہیں جہاں اسلامی تہذیب کی روشنی پھیلی، لیکن آج ان پر ظلم و زیادتی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ جامع مسجد دہلی، جو اتحاد اور عقیدے کی علامت تھی، فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہے۔ کاشی اور متھرا کے تنازعات ہمارے مقدس مقامات کو مزید کشیدگی میں دھکیل رہے ہیں۔
بہرائچ کا افسوسناک واقعہ
بہرائچ، جو سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ کی برکتوں سے منسوب ہے، ایک افسوسناک واقعے کا شکار ہوا۔ وسرجن کے دوران ایک تنازع کھڑا ہوا، جب کچھ افراد نے ایک گھر کی چھت پر چڑھ کر وہاں کا جھنڈا اکھاڑا اور اپنا جھنڈا لہرا دیا۔ یہ عمل نہ صرف اشتعال انگیز تھا بلکہ امن و امان کے لیے ایک چیلنج بھی تھا۔ نتیجتاً، ایک نوجوان کی جان چلی گئی، اور پورے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔لیکن وہاں کے حالات ہمیں ہماری کوتاہیوں کا احساس دلاتی ہے
اور اجمیر شریف
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا دربار، جو ہمیشہ انسانیت، امن، اور محبت کا مرکز رہا، آج حملوں اور فتنوں کا شکار ہے۔ یہ مقام، جو ہر مذہب اور ہر قوم کے لوگوں کے لیے امن کا پیغام لے کر آیا، آج خود نفرت کے تیر کا نشانہ بن رہا ہے۔
ہماری کوتاہیاں:
یہ سب کچھ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ جب ہم نے دین سے غفلت برتی، آپسی اختلافات کو ہوا دی، اور دنیاوی لذتوں کو دین پر فوقیت دی، تو ان مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جانے لگا۔

راستہ اصلاح کا:

رجوع الی اللہ: ہمیں اپنے گناہوں پر توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

دین کا شعور: دین کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور نوجوانوں کو دین کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔

اتحاد: آپس کے اختلافات کو ختم کرکے اجتماعی طور پر ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

علم اور عمل: علم کو فروغ دیں اور عملی اقدامات کریں تاکہ ان مقدس مقامات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔

ہمارے مقدس آستانوں پر حملے ایک اشارہ ہیں کہ ہم نے محبت اور امن کے اس بے مثال پیغام کو نظرانداز کیا ہے۔”

خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے محبت، امن، اور صلح کا درس دیا تھا، اور آج ان کے آستانے پر حملے اس بات کی علامت ہیں کہ ہم ان کے پیغام کو بھول گئے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو مزید آزمائشیں ہمارا مقدر بنیں گی۔ ہمیں اپنی حالت بدلنی ہوگی تاکہ اللہ ہماری تقدیر بدل دے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے مقدس مقامات کی حفاظت کرے۔ آمین۔

از: نورعین سلیمانی
سکونت: افسانہ روڈ بہادر گنج

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے